نونومبر شاعر مشرق، شاعر ملت، مصور پاکستان، مفکر اسلام، حکیم الامت حضرت ڈاکٹر محمد علامہ اقبال کا یومِ ولادت ہے، علامہ اقبال عظیم شاعر، فلسفی، قانون دان، سیاست دان تھے۔ علامہ اقبال کیلئے قائد اعظم محمد علی جناح فرماتے ہیں کہ اقبال کی ادبی شخصیت عالمگیر ہے، وہ بڑے ادیب، بلند پایہ شاعر اور مفکر اعظم تھے لیکن اس حقیقت کو میں سمجھتا ہوں کہ وہ ایک بہت بڑے سیاستدان بھی تھے۔ مرحوم دور حاضر میں اسلام کے بہترین شارح تھے کیونکہ اس زمانے میں اقبال سے بہتر اسلام کو کسی نے نہیں سمجھا، مجھے اس امر کا فخر حاصل ہے کہ انکی قیادت میں ایک سپاہی کی حیثیت سے کام کرنے کا مجھے موقع مل چکا ہے، میں نے ان سے زیادہ وفادار رفیق اور اسلام کا شیدائی نہیں دیکھا۔ علامہ اقبال  9 نومبر 1877 سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، آپکا آبائی وطن کشمیر ہے۔ آپکے والد شیخ نور محمد اور والدہ امام بی بی نہایت دیندار مذہبی تھے جنہوں نے آپکی تربیت کی۔ ابتدائی تعلیم دینی مدرسے سے حاصل کی جہاں آپکو میر حسن جیسے استاد ملے جن!سے آپنے قرآن پاک اور عربی سیکھی۔ علامہ اقبال نے 1893 میں مشن ہائی اسکول سے میٹرک مکمل کیا۔ 1895 میں مرے کالج سے ایف اے کیا اسکے ساتھ آپ شاعری بھی کرتے رہے ، آپ نے اپنی شاعری اس زمانے کے معروف شاعر داغ دہلوی کو اصلاح کیلئے دی جسکو انہوں نے یہ کہہ کر واپس کر دی کہ مزید اصلاح کی گنجائش نہیں ہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے 1897 میں فلسفہ انگلش لٹریچر اور عربی میں بی اے اور 1899 میں ایم اے کیا جہاں آپکو پروفیسر آرنلڈ جیسے عظیم اور شفیق استاد ملے جنہوں نے علامہ اقبال میں تحقیق اور تجسس کی صفات کو اجاگر کیا اور اعلیٰ تعلیم کیلئے انگلستان جانے کا مشورہ دیا۔ اسوقت تک علامہ میں وطن پرستی موجود تھی اسی دور میں انہوں نے ہندوستان کا ترانہ “سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا” لکھا۔ 1905 میں 28 سال کی عمر میں قانون کی تعلیم کیلئے انگلستان کی کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ انگلستان آنے کے بعد مغربی تہذیب میں رہنے کے بعد علامہ اقبال کی قلبی ماہیت ہوگئی، وطن پرستی کی نفی کی۔ مذہب سے لگاؤ تو پہلے ہی سے تھا ساتھ ہی رومی کو پڑھنے کے بعد فارسی زبان سیکھی جس سے ان پر گہرا اثر پڑا۔ 1907 میں جرمنی کی میونخ یونیورسٹی سے علم الاقتصاد پر کتاب لکھ کر فلسفے میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ 1908 میں ہندوستان واپس آ کر اورینٹل کالج اور پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں پروفیسر کے فرائض انجام دیئے۔ اسکے ساتھ ہی وکالت شروع کردی۔ 1908 سے 1934 تک وکالت سے وابستہ رہے۔ 1919 میں انجمنِ حیات اسلام کے ممبر بنے اور سیاست میں قدم رکھا۔ 1920 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ علی گڑھ کی بنیاد رکھی۔ 1927 میں لیجسلیٹو اسمبلی کے ممبر بنے پھر آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے۔ علامہ اقبال نے ہندوستان کے مسلمانوں کو سیاسی اور اقتصادی غلامی میں جکڑے دیکھا تو اپنے خطبہ الہ آباد میں مسلمانوں کی الگ مملکت کا نقشہ کھینچتے ہوئے تصور پاکستان پیش کیا۔ جب قائد اعظم محمد علی جناح مسلمانوں کی حالت سے مایوس ہو کر لندن واپس چلے گئے تو علامہ اقبال نے خطوط لکھ کر واپس آنے اور مسلم لیگ کی قیادت کیلئے قائل کیا دو قومی نظریہ پیش کر کے الگ وطن کی لگن پیدا کی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ علامہ اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا تو قائد اعظم محمد علی جناح نے عملی طور پر جد وجہد کر کے اس خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔
علامہ اقبال نے اپنی شاعری سے انقلاب برپا کیا۔ اپنی شاعری کے ذریعے اسلام کے نظامِ فکر اور فلسفہ و حکمت کو بیان کیا۔ علامہ اقبال کی شاعری میں قرآن پاک کی تعلیمات, اللہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ عشق کے رنگ ملتے ہیں۔
اقبال کی شاعری ایمان افروز پیغامات سے بھرپور ملتی ہے۔ علامہ اقبال اپنی عظمت پزیرائی الفاظوں میں بے حد اثر ہونے کی وجہ بھی حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت اور شان رسول میں درود پاک پڑھنے کے سبب سمجھتے تھے۔ انکے قریبی گھریلو ملازم کے مطابق علامہ اقبال جب بھی شاعری لکھنے بیٹھتے کوئی مشکل درپیش آتی تو قرآن پاک منگوا کر تلاوت کرتے اور پھر لکھنے لگتے تھے۔ صبح سحری کے وقت قرآن پاک کی تلاوت معمول تھا ۔ لڑکپن میں ہی ان کے والد نے انکو نصیحت کی کہ اقبال جب بھی قرآن پاک کی تلاوت کرو تو یہ مان کر تصور کر کے پڑھو کہ یہ کتاب تمہارے لیے نازل ہوئی ہے اور اللہ پاک آپ سے مخاطب ہیں۔ علامہ اقبال اپنے مناجات رسول میں فرماتے ہیں کہ اگر میرے ان حروفوں کے پیغام میں قرآن پاک کے سوا کوئی بات ملے تو روز حشر مجھے ذلیل و رسواء کر دیجیے اور اپنی قدم بوسی سے محروم فرما دیجئے۔
کی محمد سے وفا تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں۔

علامہ اقبال کا سیاسی مسلک ان کے اسلامی عقائد اور نظریات کا تابع تھا. علامہ اقبال اپنی تصانیف میں اسلامی سلطنت کے خدوخال بیان کرتے ہیں. علامہ اقبال نوجوانوں کو کسی بھی ملک کا اثاثہ اور سرمایہ سمجھتے تھے ملک کے مستقبل کے معمار نوجوان ھیں انہوں نے اپنی شاعری سے نوجوانوں کو بے شمار پیغامات دیے نوجوانوں میں نئی امید امنگ جگائی، جوش جذبہ ولولہ پیدا کیا علامہ اقبال نے مرد مومن کو شاہین سے تشبیہ دی جو خصوصیات شاہین میں پائی جاتی ہیں وہی سچے مسلمان میں موجود ہوتی ہے
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

علامہ اقبال کا شاہین انکا نوجوان خودار اور غیرت مند ہے ہمیشہ رزق حلال کماتا ہے کبھی کسی کا جھوٹا نہیں کھاتا خود کفیل ہے راستے میں آنے والے والے کسی طوفان سے نہیں گھبراتا طوفان آنے پر اور اونچائی پر پرواز کرتا ہے۔ آگے بڑھنے سے نہیں رکتا اسکا حوصلہ کبھی پست نہیں ہوتا اپنے حالات پر منزل پر بلندی پر نظر رکھتا ہے اسے اپنے قوت بازو پر یقین ہوتا ہے ہرطرح کی مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتا ہے جتنی مشکلات آتی ہیں اتنا ہی طاقتور باہمت ہوتا ہے اپنی صلاحیتوں کو نکھارتا ہے مشکلوں سے گزر کر ہی اسے راحت اور آسانی ملتی ہے اقبال کا نوجوان خود اعتماد، بے خوف، نڈر، سچا، ایماندار، محنتی، پر عزم، جذبہ ایمانی سے بھرپور ہے جو برداشت امن قوت اخوت محبت لگن سے آگے بڑھتا ہے علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کے ساتھ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر عمل پیرا ہونے پر زور دیا علامہ اقبال نے اپنی شاعری سے بند ذہنوں کو کھولا۔ کتاب اللہ سے اپنے تعلقات کو مظبوط بنانے پر زور دیا بتایا کہ یہ وہ زندہ کتاب ہے جو ہر دور کے لیے روشن رہنمائی ہے۔ اقوام کی ترقی کا راز اپنی مذہبی تعلیمات تہذیب و روایات سے جڑے رہنے میں ہے علامہ اقبال کی زندگی نہایت سادہ تھی مگر سوچ بہت بلند تھی قدیم اور جدید علوم سیکھنے پر زور دیا بتایا کہ مسلمانوں کو بتایا کہ مسلمان کبھی غلامی پر آمادہ نہیں ہوتا نیکی اور بدی کے معاملات میں کبھی غیر جانبدار نہیں ہوتا علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں خودی کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ خودی ، خود شناسی سے خدا شناسی کا سفر ہے خودی اپنے اندر جھانکنے غور و فکر کرنے اور سنوارنے کا نام ہے جس نے اپنے من کو جان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا وہ شخص جو ہر چیز کو جانتا ہے لیکن خود کو نہیں جانتا وہ جاہل ہے اور جو کچھ نہیں جانتا لیکن اپنی خودی کا عارف ہے وہ عالم ہے انسان خودی کا راز داں ہو کر خدا کا ترجماں ہو جاتا ہے
تو راز کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا
خودی کا رازداں ہو جا خدا کا ترجماں ہو جا

مسلمان میں درویشانہ صفات ہوتی ہیں فقر میں بھی کبھی اپنے اصولوں پر سمجھوتا نہیں کرتا ایک اللّٰہ کو کافی سمجھتا ہیں ما سوائے اللّٰہ کے کسی کے آگے نہیں جھکتا اللہ تعالیٰ اور رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کرتا ہے اور جس کا سینہ قرآن مجید سے منور ہوتا ہے

مسلمانوں کی دلی اور ذہنی کیفیت کو بدلنے کے لیے علامہ اقبال نے بے شمار اشعار اور تصانیف لکھیں علامہ اقبال کے 1200 سے تقریباً 7000 اشعار فارسی زبان میں ہیں علامہ اقبال کی مشہور تصانیف میں اسرار خودی ، رموز بے خودی ، پیام مشرق ، زبور عجم ، جاوید نامہ ، بانگِ درا ، بال جبریل ، ضرب کلیم ، ارمغان حجاز ، علم الاقتصاد ہیں ان میں سے کچھ تصانیف کا انگریزی جرمن فرانسیسی چینی جاپانی زبان میں ترجمہ کیا جا چکا ہے علامہ اقبال کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے برطانیہ نے ‘سر’ کا خطاب دیا ۔ایران اور افغانستان میں اقبال لاہوری کے نام سے جانے جاتے ہیں جاپان میں اقبالیات پر پی ایچ ڈی کی جاتی ہے۔ پاکستان میں آپ کے نام سے علامہ اقبال کیمپس پنجاب یونیورسٹی لاہور ،علامہ اقبال میڈیکل کالج لاہور ، علامہ اقبال اسٹیڈیم فیصل آباد ، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی پاکستان منسوب ہیں۔ علامہ اقبال نے افغانستان ایران ترکی مصر اسپین کا بھی سفر کیا ۔ 1934 میں طبیعت کی ناسازی کےسبب وکالت چھوڑ دی تو نواب بھوپال نے 500 ماہانہ وظیفہ مقرر کر دیا ۔اسی مرض کے باعث 21 اپریل 1938 کو وفات پا گئے۔ پاکستان بننے سے پہلے مسلمان ایک عظیم عالم ، شاعر، عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محروم ہو گئی ۔آج آپ کا مزار حضوری باغ بادشاہی مسجد لاہور کے قریب ہے
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا