جنوری کی ٹھٹھرتی صبح اور میں، آج آفس سے چھٹی کرنے کا دل چاہ رہا تھا۔ لیکن آج کیوں؟ یہ تو روزانہ کا معمول تھا۔ یوں سمجھ لیجئے۔ “میں تو کمبل کو چھوڑتا ہوں لیکن کمبل مجھے نہیں چھوڑتا” موٹر بائیک پر روزانہ بیس میل تک سردیوں کی یخ بستہ ہواؤں سے لڑنے کیلئے ہمت چاہیے۔ میں نے کمبل سے سر نکالا۔ کمرے کے بیچ پڑا گیس والا ہیٹر ٹھنڈ سے لڑ رہا تھا۔ میں نے پہلو میں سوئی ہوئی اپنی بیوی پر نظر جما دی۔ کچھ دن سے اس کی طبیعت ناساز تھی۔ میں نے اٹھ کر ہاتھ منہ دهویا۔ کپڑے استری کئے۔ اور آفس جانے کے لئے تیار ہونے لگا۔ ابھی مجھے ناشتہ کرنا تھا۔ لیکن بیوی کو جگانا مجھے اخلاقیات کے خلاف لگا کہ کئی دنوں سے وہ خود بیمار تھی۔ میں نے ہیلمٹ اور لیدر کے بنے دستانے اٹھائے اور  بیوی پر الوداعی نظر ڈالی۔ گھر سے نکلا اور آفس کو جانے والی سڑک سے مخالف سمت پر بائیک ڈال دی۔ مجھے کسی ناشتے والی ریڑهی سے ناشتہ کرنا تھا۔

خیر میں آٹھ بجنے سے دس منٹ پہلے دفتر جا پہنچا۔ دفتر کیا تھا کھلے میدان میں تنگ و تاریک ایک ٹوٹی پھوٹی کھڑکیوں والی سرکاری عمارت، جہاں گرمی اور سردی یکساں اثرانداز ہوتی تھی۔ اور جسے اس وقت واپڈا کی مہربانیوں نے اور بھی تاریک کر ڈالا تھا۔ ہوا میں موجود نمی برف کی باریک تہہ کی صورت میری پلکوں پر براجمان تھی۔ میرے کپڑے نیم گیلے ہو چکے تھے جو میری مخالفت میں اسں جان لیوا ٹھنڈ کا ساتھ دے رہے تھے۔ میں نے دستانے اتار کر ہاتھوں کو گرم کرنے کیلئے آپس میں رگڑا اور سامنے پڑی شکستہ میز سے ایک رجسٹر اٹھا کر کام کرنے لگا۔ ٹوٹی کھڑکیوں میں سے آنے والی سرد ہوا میری ہڈیوں میں اتر کر میرے خون کو منجمدکر رہی تھی۔ ٹھنڈ کی شدت سے میری انگلیاں سا کت ہو رہی تھیں۔

میں  نے ملازم کو چائےکا کپ لینے کیلئے بھیج دیا۔ کچھ دیر میں چائے کا کپ میرے سامنے میز پر پڑا تھا۔چائے کا  کپ کیا تھا، چائے کے کپ میں گھلا ایک پورا قصہ تھا۔ تپتی دوپہر، جب چرند پرند تو کیا شیر  بھی کچھار میں گھس جاتے ہیں۔ جون میں رمضان کا مہینہ، میں انہیں کھڑکیوں سے آنے والی گرم لُو  سے جھلستا، پسینے سے شرابور اسی جگہ اسی کرسی پر  بیٹھا اپنی ڈیوٹی کا وقت ختم ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔ موبائل کی چمکتی سکرین نے میری توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔ میسیج گھر سے آیا تھا۔ کچھ  سودا سلف گھر میں شام کی افطاری سے پہلے لازمی چاہئے تھا۔ چاروناچار مارکیٹ کی طرف بائیک موڑ لی۔ ایک، دو گھنٹے خریداری کی نذر ہو گئے۔ سامان پورا کر کے موٹر سائیکل کے ساتھ باندھا  اور  مسکراتے ہوئے گھر میں داخل ہوا۔ بیوی کو سامان والا تھیلا تھما کر بستر پر نڈهال ہو کر گر گیا۔

اس نے تھیلے کو الٹ پلٹ کر چلانا شروع کر دیا۔  “چائے کا ڈبہ آج بھی نہیں لے کر آئے۔ چار دن سے میں چائے کو ترس گئی ہوں۔ عجیب مخلوق ہو تم۔ باپ کے گھر میں ایک وقت کی چائے بھی لیٹ نہیں ہوتی تھی۔ اور یہاں مجھے چار دن ہو گئے ہیں اب تک چائےکا ڈبہ نہیں آیا گھر میں، ماں باپ ہی ہوتے ہیں جو بیٹیوں کو پھولوں کی طرح رکھتے ہیں۔ یہاں تو میں بس ایک ملازمہ ہوں”۔ وہ بولتی چلی گئی۔

” صاب جی! چاء ٹھنڈی ہوگئی جے “

میں ملازم کی آواز پر چونکا اور کپ اٹھا کر سائیڈ پر رکھ دیا۔ میں روزانہ گھر کس کے لئے جاتا ہوں؟ میں یہ سردی گرمی کس کے لئے برداشت کرتا ہوں؟ میرے کئی خواب ہیں جو صرف اور صرف بیوی بچوں کے ساتھ جڑے ہیں۔ میں اپنے بیوی بچوں کو ہر خوشی دینا چاہتا ہوں۔ اچھی خوراک، اچھی تعلیم، اچھے لباس میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ میرا دن سڑکوں کی خاک چھانتے گزرتا ہے۔ اور میری رات اس منصوبہ بندی میں کروٹیں بدلتے گزرتی ہے کہ میں بہتر سے بہترین سہولیات فراہم کرنے کے لئے مزید کیسے محنت کر سکتا ہوں۔ کیا قربانی دے سکتا ہوں۔

کیا مجھے تم سے محبت نہیں ہے؟ تو پھر وہ کون سا جذبہ ہے جو مجھے اپنی ضروریات پر اپنے بیوی بچوں کی خواہشات کو ترجیح دینے پر اکساتا ہے؟

تم ٹھیک کہتی ہو۔ میں واقعی عجیب مخلوق ہوں۔ جو صبح سے شام تک سڑکوں اور چوراہوں پر موسموں کی شدت سے لڑتا ہوں۔ سنگل تنخواہ میں بعض اوقات ڈبل ڈیوٹی دے کر، معمولی باتوں پر اپنے سے اوپر کے افسروں سے جھڑکیاں کھا کر اپنی عزت نفس کو  مجروح کر کے گھر میں پیسے لے کر آتا ہوں۔ جن سے تم موسموں کی شدت سے بچنے کا سامان کرتی ہو۔ میں تمہاری راحت کیلئے کماتا ہوں۔ تمہاری خوشی میں میری خوشی ہے۔ تم مانو یا نہ مانو، مجھے تم سے محبت ہے۔

لیکن یہ طعنہ روزانہ چائے کے کپ میں گھل کر بالائی کی تہہ جما دیتا ہے۔