کوئی “کم علمی” کی بنا پر گہرے رنگ کا جوتا خرید لایا تھا۔  وہ ہی جوتا پہن کر میرے گھر آ گئیں۔اور پھر خود ہی بنا کسی استفسار کے صفائی پیش کرنے لگیں۔

“میرا جوتا گہرے رنگ کا ہے۔ اس عمر میں گہرا رنگ اچھا نہیں لگتا۔میں نے بہو سے کہا ہے کہ مجھے ہلکا رنگ لا دینا۔”

آنٹی کیا آپ کو یہ رنگ اچھا نہیں لگتا ؟ میں نے خاتون سے پوچھا۔چھیاسٹھ سالہ خاتون نے اپنے جوتے پر نظریں گاڑھ دیں۔لمحے بعد پیار سے بولیں۔ ” بیٹا یہ رنگ مجھے بہت بھلا لگتا ہے۔لیکن لوگ کیا کہیں گے بوڑھی گھوڑی لال لگام”۔

آنٹی یہ جوتا بہت پیارا لگتا ہے۔ آپ  بالکل تبدیل نہ کریں ۔ میں نے ان کے جوتے کی ڈھیر ساری تعریف کی اور بتایا کہ یہ جوتا آپ کے پاؤں میں بہت جچ رہا ہے۔  بے یقینی اور حیرت کے ملے جلے جذبات میں خاتون نے دوبارہ اپنے جوتوں پر نظریں جما دیں۔ اور پھر کہنے لگیں۔ “اس عمر میں ہلکے رنگ اچھے لگتے ہیں۔

لیکن آپ تو کہہ رہی ہیں مجھے یہ رنگ بہت اچھا لگ رہا ہے۔ میں نے سوالیہ انداز میں جواب دیا۔ “مجھے تو اچھا لگ رہا ہے لیکن اس عمر میں ہلکے رنگ پہنے جاتے ہیں۔”

پتہ نہیں میں ضرورت سے ذیادہ حساس ہوں یا واقعی اس جملے میں چھوٹی چھوٹی ان گنت خواہشوں کے

 قتل کئیے جانے کی داستان تھی۔ میں نے مختلف دلائل سے ان کو قائل کر لیا کہ رنگ کا عمر سے کوئی تعلق نہیں اور یہ کہ جو ایسی باتوں کا مذاق اڑاتے ہیں ان کی سوچ  محدود ہوتی ہے۔ تب ان کے چہرے پر اطمینان اور خوشی دیکھ کر مجھے بھی بہت خوشی ہوئی۔

یوں ہی ایک دن ایک لڑکی مارکیٹ سے واپسی پر کہنے لگی ۔”امّاں کَھٹّے(نارنجی) رنگ کے سوٹ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئیں۔ بڑی مشکل سے پھیکے رنگ کے سُوٹ پر منایا۔” امّاں کی بے ضرر سی خواہش کے کچلے جانے پر اس لمحے  مجھے اماں پر بے حد ترس  آیا۔ میں نے لڑکی سے سوٹ بدل کر اماں کی پسند کا سوٹ دلانے کا کہا۔

امّاں جو میری باتیں سن رہی تھیں افسردگی سے بولیں۔ ” نہیں نہیں ، اس عمر میں ایسے رنگ پہنے اچھے نہیں لگتے۔” اٹھاون سالہ امّاں دانستہ طور پر یہ بات سمجھ چکی تھیں کہ شوخ رنگ پہننا اب کسی جرم سے کم نہیں ہو گا۔

مجھے معاشرے کی بے حسی پر رونا آیا۔ ہم ایک زندہ دل انسان کو ادھیڑ عمری کے طعنے دے کر وقت سے پہلے بوڑھا کر دیتے ہیں۔ مرد ہو یا عورت ہو ڈھلتی عمر ، کمزور ہوتا وجود ایک ایسا احساس ہے جو اداس کر جاتا ہے۔ لیکن ہم ہر گھڑی اپنے رویوں سے یہ احساس بڑھاتے ہیں کہ تم پر بڑھاپا طاری ہو رہا ہے۔ اب شوخ لباس پہننا، شوخ ادائیں دکھانا تمہارا حق نہیں ہے۔ شوخ رنگوں کی بجائے تمہیں اب کفن سلوانا چاہئیے۔

تمہیں اب ہنسنا کھیلنا زیب نہیں دیتا کہ تمہارے چہرے کی جھریاں نمایاں ہو کر تمہیں بھدہ دکھاتی ہیں۔  تمہیں اپنے اوپر مُردوں والے آثار طاری کر کے ایک دم سنجیدہ ہوجانا چاہئیے کہ تمہارے پاؤں قبر میں ہیں اور ہم سب تمہارے گورکن ہیں۔

“زندگی زندہ دلی کا نام ہے

مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں”

خدارا اپنی سوچ کو بلند کریں۔ کوئی تیس سال کی عمر میں بے ساختہ  قہقہے لگاتا ہے تو لگانے دیں۔ کوئی چالیس سال کی عمر میں اٹھکیلیاں کرتا ہے تو کرنے دیں۔ کوئی پچاس برس کی عمر میں ادائیں دکھاتا ہے تو دکھانے دیں۔ اور اگر کوئی ساٹھ سال کی عمر میں شوخ رنگ پہننا چاہتا ہے تو پہننے دیں۔ جئیں اور جینے دیں۔