نحمده ونصلی علی رسوله الکریم اما بعد اعوذ باللہ من الشیطان الرجيم بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم آج میں آپ سب کے سامنے قرآن پاک کی ایک ایسی آیت کے معنی تشریح و تفسیر بیان کروں گی جو کہ ہم روزمرہ زندگی میں بہت زیادہ پڑھتے ہیں اسے قرآن کی عظیم آیت کہا گیا ہے۔یہ سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 255، فضائل میں بے مثل آیت الکرسی ہے۔ بچپن سے لے کر اب تک دن ميں کئی مرتبہ ہم اسے پڑھتے ہیں گھر سے نکلتے وقت، گھر داخل ہوتے وقت، سفر میں، کسی بھی مشکل یا مصیبت میں، لیکن بسا اوقات اس کے معنی سے ناواقف ہوتے ہیں۔ ہر فرض نماز کے بعد پڑھنے سے بمطابق احادیث جنت میں داخلے کی ضمانت ہے ۔جو شخص اسے صبح پڑھے شام تک اللہ کی حفاظت میں رہتا ہے اور شام کو پڑھنے والا صبح تک حفاظت الہی میں رہتا ہے ۔روایات میں ہے کہ اس اکیلی آیت مبارکہ کے نزول کے وقت 30 ہزار فرشتے اور بعض روایات کے مطابق 70 ہزار فرشتے اترے تھے جس سے اس کی شان ظاہر ہوتی ہے ۔
اس آیت میں حفاظت کے اثرات ہیں گھر سے نکلتے وقت پڑھنے سے انسان فرشتوں کے حصار میں خطرات سے محفوظ رہتا ہے۔ فرشتے اس کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔ گھر پر پڑھنے سے مفلسی دور ہوتی ہے ،شیطان سے بچاؤ اور جادو سحر کا خاتمہ ہوتا ہے ۔اس آیت کے ہر لفظ کے بدلے ہزار برس کا ثواب پڑھنے والے کے نامہ اعمال میں لکھا جاتا ہے اور وہ اللہ کے مقربین میں شمار ہو جاتا ہے ۔قران پاک تمام اسلامی علوم و کتب کا سردار ہے اور قرآن کی سردار سورہ بقرہ ہے اور بمطابق آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم آیت الکرسی پورے قرآن کی آیات کی سردار ہے ۔یہ آیت اللہ کی پہچان اس کا تعارف اس کی عظمت اور قدرت کا بیان اور اللہ کے تمام انبیاء کی دعوت و تعلیمات کا نچوڑ ہے یہ امید، عدل، خوف اور محاسبہ والی آیت ہے اس میں صرف اللہ ہے ۔اس میں اللہ کی طاقت و قدرت عظمت، کبریائ، ہیبت و جلال، شہنشاہت بخشش و عطا کا ذکر ہے جو اس آیت کو سمجھ گیا وہ سب کچھ سمجھ گیا۔ جس نے اس آیت کو پا لیا اس نے سب کچھ پا لیا اللہ نام ہے خالق بے مثل حقیقی معبود کا ۔سو یہ آیت بتاتی ہے کہ اللہ کیا ہے یہ آیت اللہ کی صفات اور معرفت کے لئے مشعل راہ ہے
سوآیتہ الکرسی کا لفظی اور بامحاورہ ترجمہ مع تشریح و تفسیر جو کہ مختلف مفسرین کی آراء پر مبنی ہے پیش خدمت ہے
آیت الکرسی
اللہ لا الہ الا
اللہ۔ اللہ
لا ۔ نہیں
الہ۔ کوئی معبود( برحق )
الا ۔ مگر ،سوائے
ہو۔ وہ یا اس کے
ترجمہ :اللہ کے سوا کوئی معبود برحق یعنی عبادت کے لائق نہیں
اس آیت مبارکہ کے آغاز میں اللہ تعالی اپنا تعارف بیان کر رہے ہیں۔ یہ بیان توحید ہے کہ میں بے نیاز شہنشاہ، معبود برحق ہوں، کائنات میں ہر موجود و معدوم ہر مخلوق کا خالق ہوں۔ ذات الہی کے مقابلے میں کوئی نہیں۔ جس نے اس کے علاوہ اپنے دل کی گہرائیوں میں کسی اور کو سجا لیا خواہ وہ پتھر کی مورتی ہو، دنیا کی ہوس ہو، خواہش کے موج یا محبوب کی محبت غرض کسی اور الہ کو اگر دل میں جگہ دی تو وہ دل اللہ تعالی سے بے آباد ہوگیا
اللہ لا الہ الا کی شہادت کا عملی مطلب مخلوقات کی غلامی سے آزادی اور صرف اللہ واحد کی غلامی ہے ۔اس میں فلاح ہے۔ دنیاو آخرت کی بادشاہت ہے۔ اس کلمہ سے نور ہدایت نصیب ہوتا ہے۔ انسان ہر برائی و خطرات سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
اللہ لا الہ الا کے ورد سے دل کا سکون اور روح کی آزادی میسر ہوتی ہے
الحی القیوم
الحی۔ زندہ
القیوم۔ ہمیشہ رہنے والا، سب کو سنبھالنے والا
ترجمہ: وہ زندہ و جاوید ہے سب کو سنبھالنے والا یعنی جس پر کبھی فناطاری نہ ہوگی ہمیشہ کے لئے قائم دائم رہنے والا مسبب الاسباب
اللہ کی شان الحی القیوم ہے اس کی زندگی کسی کی مرہون منت نہیں بلکہ بذات خود وہ زندگی ہے۔ ہر ایک کی زندگی کا منبع ہے اور ہرشے میں زندگی اس کا عکس ہے۔ باقیوں کی زندگی اس کی مستعار ہے ۔وہ فنا سے بالاتر سب کا پروردگار ہے۔واجب الوجود موت و حیات کو قیام دینے والا حاجت روا ہے۔ وہ لافانی و مشکل کشا ہے۔ وہ زندہ ہے پر اسے اپنی زندگی سے نہ ملاؤ کہ اسے خوراک،نیند و آرام کی حاجت نہیں۔ وہ پوری کائنات کو سنبھالنے اور قائم رکھنے والا ہے
الحی القیوم کے ذکر میں بیماروں کے لئے شفا کمزوروں کے لئے طاقت اور مظلوموں کے لیے نجات ھے۔
لا تاخذہ سنته ولا نوم
لا۔ نہ
تاخذہ۔ پکڑتی ہے اس کو یا آتی ہے اسکو
سنته. اونگھ
و۔ اور
لا۔ نہ
نوم۔ نیند
ترجمہ: نہ اسے اونگھ آتی ہے نہ نیند
یعنی وہ اونگھ اور نیند سے مبرا ہے، کیونکہ یہ نقص ہیں اور وہ ذات ہر نقص سے پاک ہے۔ جسے نیند آجائے وہ حاجت روا کیوں کر ہو سکتا ہے۔ وہ لمحہ بھر کے لئے بھی جہان ہستی کی تدبیر سے غافل نہیں۔ سب اسی کی ملکیت ہے ۔مخلوقات وقت کے ساتھ سست پڑ جاتی ہیں، آرام مانگتی ہیں،نیند چاہتی ہیں، سوئے بغیر نہیں رہ سکتیں اور نیند موت کی ھی ایک صورت ہے۔ سو آیت کے اس حصے میں ذکر ہے کہ وہ ذات پاک ،زمان و مکان کا حاکم، سب کمزوریوں سے مبرا طاقت کا سرچشمہ ہر لحاظ سے مکمل اور چوکس اپنی مخلوقات کے ہر ذرے سے باخبر ہے۔
لا تاخذہ سنته ولانوم کے ذکر سے آدمی کو تھکاوٹ اور سستی سے نجات ملتی ہے
له ما فی السموت ومافی الارض
له. اسی کا ہے
ما. جو کچھ
فی السموت۔ آسمانوں میں ہے
و مافی الارض۔ جو زمین میں ہے ترجمہ : آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اسی کا ہے
اس کی حکومت سے عالمین کا کوئی گو شہ باہر نہیں۔ سب کا نظام اس کے ہاتھ میں ہے اور اس کا کوئی حصہ دار نہیں۔ اس کی حکومت لازوال اور لامحدود ہے۔ وہ مالک کل ہے ۔ساری کائنات کا ہر ذرہ ،جمادات و نباتات، حیوانات، انسان ،جن، ملائکہ غرض ہر مخلوق اس کی ملکیت ہے انسان صرف امین ہے اللہ کی دی ہوئی ہر چیز کا۔ حتی کہ اپنے جسم، زندگی اور ہر سانس کا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ہم اسی کے لیے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں
له ما فی السموت وما فی الارض کے ذکر سے غربت اور بے چارگی سے نجات ملتی ہے ۔
من ذالذی یشفع عندہ الا با ذنہٖ
من۔ کون ہے۔
ذالذی۔ وہ جو
یشفع۔ سفارش کرے
عندہ۔ اس کے پاس
الا۔ بغیر، مگر
باذنهٖ۔ اس کی اجازت کے
ترجمہ : کون ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر اس سے کسی کی سفارش کرے۔
اس ذات الہی کی بادشاہت میں شرکت تو بہت دور کی بات ہے کون ہے وہ، کس میں ہمت اور جرات ہے کہ اس کی عظمت کے سامنے لب کشائی بھی کرسکے۔ اس کے اذن و اجازت کے بغیر کسی کی سفارش و شفاعت کر سکے۔ اس میں مشرکین کا رد ہے جو کہتے تھے کہ ہمارے بت ہماری سفارش کریں گے ۔کسی کو اختیار سفارش نہیں سوائے اس کے جسے وہ اجازت عطا فرمائے اور وہ ہستی صرف سردار کائنات ہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے، جنہیں اللہ نے اپنی معرفت پہچان اور اظہار کے لئے پیدا کیا۔ صرف اور صرف انہیں شفاعت کی اجازت ہے اور وہ بھی ان کے لئے جو شفاعت کے حقدار ہوں گے۔ تو مسلمانوں کے لیے حضور کی شفاعت حق ہے اور اس پر کامل ایمان رکھنا ایک اہم اسلامی عقیدہ ہے۔
سفارش وسیلہ اور شفاعت کی کامیابی کے لئے من ذالذی یشفع عندہ الاباذنہٖ کا ورد کریں
یعلم مابین ایدھم وماخلفھم
یعلم۔ وہ جانتا ہے
ما۔ جو کچھ
بین۔ آگے، درمیان، سامنے
ایدیھم۔ ان کے ہاتھوں کے
و۔ اور
ما۔ جو کچھ
خلفھم۔ انکے پیچھے ہے
ترجمہ: وہ جانتا ہے جو کچھ لوگوں کے سامنے ہو رہا ہے اور جو ان کے پیچھے ہو چکا ہے ۔وہ کائنات کے اول و آخر کا علم رکھتا ہے
اللہ کا علم لا انتہا ہے۔ وہ ماضی حال اور مستقبل کے متعلق جانتا ہے۔ جبکہ مخلوقات کا علم زمان و مکاں کا پابند ہے۔اللہ کا علم لا محدود ہے۔ وہ بیک وقت ساری کائنات کے غائب و حاضر حالات سے واقف ہے ۔حتیٰ کہ وہ تو دلوں کے پوشیدہ راز اور وسوسوں کو بھی جانتا ہے۔ ہر جگہ اس کا حکم چلتا ہے۔ معلومات کے کنٹرول کے لئے نہ اسے چیزوں کے پاس جانا پڑتا ہے اور نہ چیزوں کو اس کے پاس آنا پڑتا ہے وہ بیک وقت ان کے اندر بھی ہے اور باہربھی۔ زماں بھی خود مکاں بھی خود۔ اسے کوئی دھوکا یا فریب نہیں دے سکتا ۔
علم وادراک اور عقل و فہم میں ترقی کیلئے یعلم ما بین ایدیھم وما خلفھم کا ذکر کرنا چاہیے
ولایحیطون بشیء من علمه الا بما شآء
و۔ اور
لا۔ نہیں
یحیطون۔ وہ احاطہ کرسکتے
بشیء۔ کسی چیز کا،کچھ بھی
من علمه۔ اسکے علم میں سے
الا۔ مگر
بما۔ اسکا،جو،جتنا
شآء۔ وہ چاہے
ترجمہ : اور وہ اس کے علم سے کچھ نہیں پا سکتے یا دسترس حاصل کر سکتے مگر جو وہ چاھے۔
اللہ کے علم کو کوئی اور مخلوق نہیں گھیرسکتی۔ سب کچھ اللہ ہی کے احاطہ اور قدرت میں ہے ۔ماسوا اس کے کوئی نہیں جانتا آگے کیا ہونے والا ہے۔ جو وہ ذات باری چاہتی ہے وہی ہوتا ہے اس پر کوئی جبر نہیں کر سکتا۔ اسے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ مخلوقات میں جس کسی کے پاس جو بھی علم ہے وہ بھی اللہ تعالی کا عطا کردہ ہے۔ انبیاء اور رسولوں کو بھی جتنا وہ چاہے علم دے۔ سائنسدانوں اور موجدوں کا علم بھی اس کی عطا ہے ۔ وہ جب چاہے، جس کو اورجتنا چاہئے علم عطا کردے۔
جیسے شفاعت کے لیے شفاعت کا حقدار ہونا ضروری ہے اسی طرح علم کے لئے علم کا حقدار ہونا بھی ضروری ہے اور یہ حق اسے ملتا ہے جسے علم کی سچی طلب اور ساتھ حقیقی محبت ہو۔ یہ اللہ تعالی کی سنت مبارک ہے کہ جو ڈھونڈتا ہے وہ اسے راہ دکھاتا ہے ۔اس لئے جو کوئی بھی اخلاص اور لگن کے ساتھ چاہےاللہ اس پر اپنے علم کے دروازے کھول دیتا ہے ۔یعنی اس کی رضا ہو تو کوئی بھی اس کے علم پردسترس حاصل کرسکتا ہے ۔نیز جتنا اور جس کو وہ چاہے وگرنہ کوئی اس کے علم کااحاطہ نہیں کر سکتا
حصول علم اور غیب کے راز جاننے کے لئے ولا یحیطون بشیءمن علمه الا بما شآء کا ورد کریں ۔
وسع کرسیه السموت والارض۔
وسع۔ حاوی ہے،گھیرلیا ہے
کرسیه۔ اسکی کرسی(بادشاھی، علم، قدرت،عظمت)
السموت۔ آسمانوں
والارض۔ اور زمین پر
ترجمہ : اسکی کرسی (قدرت و علم) حاوی ہے، گھیرے ہوئے ہے آسمانوں اور زمین کو
یہاں کرسی محاورتاً بھی استعمال ہے مراد اللہ کا اقتدار، بادشاھت، طاقت ،حکومت، اسکی عظمت ،علم و حکمت ہے۔ جس نے ساری کائنات کو گھیرا ہوا ہے۔اور اس کی حفاظت اسے کچھ دشوار نہیں ۔اسکی وسعت لامحدود ہے ۔کائنات کے اندر اور باہر اس کی ذات پاک ہے ۔وہ دینے والی ذات ہے جہاں سے مرضی اسے پکارو۔ سرور کائنات نے بتایا کہ زمین کی جو نسبت آسمانوں سے ہے وہی نسبت آسمانوں کی کرسی سے ہے۔اور عرش جس پرکرسی ہے ،اپنی وسعت و عظمت اور شان میں لا محدود ہے اس لیے اس کی حقیقت کا ادراج انسانی استطاعت سے باہر ہے۔ اللہ تعالی لامحدود ہے اس کے لیے کسی مقام، سمت اور جسم کا تصور بے ادبی ہے وہ ہستی بڑی بلند و عظیم ہے۔اس کے علم ،وسعت اور قدرت کو اپنے محدود پیمانوں سے نہیں ناپنا چاہیے ،کہ یہاں سے شرک کی راہیں کھلتی ہیں۔ اسکی شان کا تصور ہماری عقلوں سے باہر کی بات ہے ۔
قدرت الہی اور کائنات کے راز جاننے کے لیے واسع کرسیه السموت والارض پڑھیں
ولا یودہ حفظھما
و۔ اور
لا۔ نہیں
یودہ۔ کوئی بوجھ اس پر، دشوار
حفظھما۔ انکی حفاظت
ترجمہ: اور اسے انکی(زمین و آسمان) حفاظت نہیں تھکاتی یا اور نہ ہی کوئی بوجھ یا دشوار ہےاس پر ان کی حفاظت
ذات الہی سب سے بلند و بالا تر ہے۔ اسے کام کرنے کے لئے طاقت نہیں چاہیے، بلکہ وہ خود ہر طاقت کا منبع ہے۔ اس کے لیے وسیع وعریض بے شمار زمینوں اور آسمانوں پر مشتمل کائناتوں کی حفاظت اور انتظام بالکل گراں اور بار نہیں ۔ اسے اس کائنات زمین و آسمانوں کی حفاظت بالکل نہیں تھکاتی۔ سب کچھ اس کے اشاروں پر چلتا ہے جب تک چاہے گا دنیا باقی رہے گی۔ جب فنا چاہے گا سب فنا ہو جائے گا۔ اللہ اس کے کنٹرول کے لیے کسی کا محتاج نہیں ۔اس کا نظام حکومت مادی اسباب پر انحصار نہیں کرتا۔ بلکہ وہ بیک وقت ہر جگہ موجودہے۔ اس کے نظام میں ہرچھوٹی بڑی چیز اس کے قانون کی تابعداری اور اس کی مرضی کی پابند ہے۔ اور کسی ذرےکی بھی مجال نہیں کہ اس کے دائرے کار سے انحراف کرے۔ اللہ زمان ومکاں سے بالاتر ہر جگہ ہر وقت اٹل حقیقت ہے۔
اللہ پر توکل کرتے ہوئے اسباب کا انتظام کرکے ولایودہ حفظھما پڑھنے سے ہر طرح کی حفاظت ہوگی
وھوالعلی العظیم
و۔ اور
ھو۔ وہ
العلی۔ برتر، بلند تر،عالی مرتبت العظیم۔ جلیل القدر عظمت والا ہے
ترجمہ: اور وہ بلند تر،عالی مرتبت، جلیل القدر ،عظمت والا ہے
آیت کے آخر میں ذکر الہی کی لا انتہا،بلند مرتبہ عظمت کی خصوصیات کا ذکر ہے کہ وہ تمام عیوب سے پاک ،لامحدود طور پررفعت وکمال ااور جلیل القدر خصوصیات کا مالک ہے۔ اس کے سامنے سب کچھ ھیچ ہے۔ تمام زبانوں کے الفاظ اس کی شان بیان کرنے کے لیے ناکافی ہیں اگر تمام سمندر سیاہی اور تمام درخت قلم بن جائیں اور ایسا بار بار ہوتا رہے تو بھی میرے رب کی شان نہیں لکھی جاسکتی۔ کائنات کے متعلق انسان کاعلم ایسے ہی ہے جیسے ریت کا ایک ذرہ زمین کے مقابلے میں ہو۔ مخلوقات میں صرف انسان کو ہی اللہ نے اپنے عرفان کے لیے پیدا کیا۔ اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع سے ہی اللہ کی معرفت حاصل ہوسکتی ہے ۔
معرفت الہی حاصل کرنے کے لیے وھوالعلی العظیم کا ورد کریں۔