اللہ کی نعمتیں ہمارے چار سو پھیلی ہوئی ہیں جن کا احاطہ و شمار ایک انسانی ظرف کے بس کی بات نہیں ہے۔ کچھ نعمتوں کوتو ہم ہمہ وقت محسوس کرتے ہیں اور شکر گزار ہوتے رہتے ہیں لیکن کچھ نعمتوں کو اچانک محسوس کیا جاتا ہے ،جیسے آج جب اذان مغرب ہوئی تو مجھے احساس ہوا کہ ایک اسلامی ملک میں رہنا اور پانچ وقت کا آواز اذان سننا بھی کسی بڑی نعمت سے کم نہیں ۔
اذان لغت میں خبر دینے یا اطلاع دینے کو کہتے ہیں اور اصطلاح شریعت میں اوقات نماز کی خبر دینے کے لیے چند مخصوص الفاظ بلند آواز دہرائے جانے کو اذان کہتے ہیں۔ یہ اللہ کے اذکار میں سے ایک عظیم ترین مجموعہء ذکر ہے، جو کہ اسلام کی شان و شوکت کا ایک بہترین عملی مظاہرہ ہے، اس کی مثال دنیا کی کسی مذہب میں نہیں پائی جاتی۔ یہ نماز کی پکار ہی نہیں بلکہ کامیابی کی آواز ہے اور شیطان کو بھگانے کا ذریعہ ہے جہاں تک اذان آواز کی پہنچ ہوتی ہے رحمتوں کی بارش ہو جاتی ہے مغفرت کردی جاتی ہے ۔
حضرت عمر سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب اذان یعنی مؤذن کے ساتھ اذان کو دہرانے کا حکم دیا ہے جیسے
اللہ اکبر کے جواب میں اللہ اکبر ہی کہاجائے
اشھد ان لا الہ الا اللہ کے جواب میں اشھد ان لا الہ الا اللہ کہاجائے
اشھد ان محمد الرسول اللہ کے جواب میں اشھد ان محمد الرسول اللہ کہا جائے
حی علی الصلوۃ کے جواب میں لاحول ولا قوۃ الا باللہ
حی علی الفلاح کے جواب میں لاحول ولا قوة الا باللہ کہا جائے
پھر اللہ اکبر کے جواب میں اللہ اکبر اور لا الہ الا اللہ کے جواب میں لا الہ الا اللہ کہا جائے
جواب اذان کا تو ثواب ہے ہی ،خاموشی اور احترام سے ہر کام کو چھوڑ کر دھیان سی اذان سننے سے بھی بہت اجر ملتا ہے تو یعنی ہم بغیر کسی اضافی کوشش کے بے تحاشہ ثواب سے فیضیاب ہو سکتے ہیں ۔
کلمات اذان کی ترتیب اور پیغام اسے عبادت کی طرف بلانے کے تمام طریقوں سے بہت ممتاز کر دیتا ہے۔ اللہ کی عظمت و کبریائی اور توحید کے بہ تکرار اعلان سے اذان شروع ہوتی ہے اور اسی پر ختم ہوتی ہے، گویا وہ عقیدہ جس پر تمام عقیدوں کا انحصار ہے اسے اول و آخر میں رکھ کر اس کے محیط ہونے کے پہلو کو نمایاں کر دیا گیا ہے۔
رسالت محمدی کا اقرار امت مسلمہ کا دوسرا امتیازی وصف ہے چنانچہ اقرار توحید کے بعد اسے رکھ دیا گیا ہے۔
درمیان میں نماز کی طرف دعوت اور اہمیت کا بیان ہے۔ عربی سے نابلد ہونے کے باعث لفظ حئ میں پائے جانے والے سختی کوہم سمجھ پاتے ہیں کہ کس شدت سے ہمیں نماز اور بھلائیوں کی طرف بلایا جا رہا ہے، نیز ان متوازی جملوں نےتو نماز اور فلاح کو ہم معنی قرار دے دیا ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ نماز انسان کے خداسے تعلق کا بیان واظہار ہے ، دین تمام کا تمام بندگی ہے اور نماز اس کا مظہر ہے،یہی وجہ ہے کہ نماز اور فلاح کو مترادف بنا دیا گیا ہے
حضرت آدم جنت سے زمین میں اتارے گئے تو ان کی گھبراہٹ دور کرنے کے لیے حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اذان دی۔ سب سے پہلے اذان دینے والے آسمانوں میں حضرت جبرائیل عليه السلام اور زمین پر انسانوں میں حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ ییں۔
اذان غم و پریشانی کی دافع ہے، وبا کے زمانے میں اذان دینا مستحب ہے کہ اس سے اللہ عذاب سے امن دیتا ہے، گھر میں بے برکتی اور اثرات آسیب سے بچاتی ہے ،بچے کی پیدائش کے وقت کان میں اذان دینے سے بچہ شیطان کے شر اور اس کے وسوسوں سے محفوظ رہتا ہے۔
مؤذن یعنی اذان دینے والے کے لئے بھی بخشش روز قیامت بلند مقام کا بیان ہے ۔ اذان اور تکبیر کے درمیان جو بھی دعا مانگی جائے رد نہیں ہوتی۔ جو بھی اذان کو غور سے سنتا ہے اور اس کی تکمیل کے بعد نماز قائم کرتا ہے اس کے لئے بے شمار نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں اور اس جہان اور اگلے جہان میں کامیابیوں کی وعید ہے۔
اذان بنیادی طور پر مسلمانوں کو زندگی کے بنیادی مقصد کے بارے میں یاد دہانی کرواتی ہےیعنی خود کو اللہ کی مرضی کے تابع کرنا ۔ یہ حکم ربی ہے جو دنیاوی معاملات میں مصروف مسلمانوں کو وقت نماز کی ادائیگی کروانے میں مددگار ہے۔