ہم پردیس میں مزدوری کر کے، محنت مشقت والے کام کر کے، والدین بہن بھائیوں، بیوی بچوں سے دور رہ کر جدائی سہہ کر، کبھی کبھی تو خود بھوکے پیاسے رہ کر پیچھے والوں کی فرمائشیں پوری کرتے ہیں۔
پاکستان چھوڑ کر جو لوگ خاص طور پر مرد حضرات دوسرے ملکوں میں کمانے جاتے ہیں ان کے تمام شکوے شکایتوں کو جمع کیا جائے تو حاصل یہ ہوتا ہے جو آپ نے اوپر پڑھا۔
ہم نے مرد کو (دیسی ہو یا پردیسی) والدین، بہن بھائیوں، پڑوسیوں، رشتہ داروں کے حقوق تو بتائے لیکن اس کے اپنی ذات پر کیا حقوق ہیں، یہ نہیں بتایا۔
کسی بھی شخص پر سب سے پہلے اس کی اپنی ذات کا حق ہے۔ اپنی جان کو کسی قسم کا کوئی نقصان نہ پہنچائے۔ کماتا ہے تو اپنی ذات پر خرچ کرے۔ اپنی صحت کا خیال رکھے۔ صحت مند غذا کھائے۔ اپنی آمدنی اور مرتبے کے مطابق لباس زیب تن کرے۔ اپنے آرام اور سکون کے لئے رہائش اور سواری پر خرچ کرے۔ اور اپنی آمدنی کا کچھ فیصد بیس، تیس فیصد بچت (سیونگ یا انویسٹمنٹ) کرے۔
پھر اس کے بعد اس کے پاس کچھ بچتا ہے تو اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے شادی کرے۔ شادی کر کے بیوی کو اپنے ساتھ رکھے۔ تب ہی شادی کا فائدہ حاصل ہو گا۔ بے شک وہ پاکستان میں ہے یا پاکستان سے باہر ہے۔ کیونکہ شادی اس نے اپنی ذات کو سکون پہنچانے کے لئے کی ہے۔ اور یہ اس کا اپنی ذات پر حق ہے۔
اس کے بعد دیکھے کہ اس کے پاس عزیز واقارب کی فرمائشوں کے لئے کچھ بچتا ہے یا نہیں۔ بچتا ہے تو شوق سے خرچ کرے۔ ورنہ موج میں رہے۔
کسی کی سکت اور طاقت سے بڑھ کر فرمائشی پروگرام چلانے والا بے شک کوئی بھی ہو اتنا خود غرض ہوتا ہے کہ وہ کبھی بھی ان مشکلات کے بارے میں نہیں سوچتا جن سے ایک کمانے والے اور گھر چلانے والے کو گزرنا پڑتا ہے۔ نہ ہی وہ یہ سوچتا ہے کہ اس کے اپنے گھر کے کیا حالات ہوں گے۔
اس لئے اپنی ذات کے لئے خود ہی سوچنا پڑے گا۔
اگر آپ کو خود اپنی پرواہ نہیں تو کوئی اور کیوں کرے گا؟
تف ہے ان بیویوں پر جو شوہر کے خون پسینے کی کمائی سے اس کو ورغلا کر یا چھپا کر میکے بھیجتی ہیں یا فضول میں اڑاتی ہیں۔ اور تف ہے ان عورتوں اور مردوں پر جو جذباتی حملے کر کے ایک بیٹے یا بیٹی کو الٹا لٹکا کر اس کی کمائی سے اولاد اور اولاد کی اولاد پالتے ہیں۔
دونوں ہی ظالم ہیں۔
اور بیوقوف ہے وہ شخص جو ان اپنوں کو نہیں پہچان پاتا جو اس کے رشتہ دار نہیں اس کی جیب کے رشتہ دار ہیں۔ اپنی ذات کو بھول کر ساری عمر ان بے رحم رشتوں پر خرچ کرنے میں لگا رہتا ہے۔ جیسے ہی مجبور، بے بس ہوتا ہے دھتکار دیا جاتا ہے۔
اس لئے سب سے پہلے اپنے اوپر خرچ کریں۔ اپنی صحت پر خرچ کریں۔ جان ہے تو جہان ہے۔ اچھا کھائیں پئیں گے تو آپ کی سوچنے سمجھنے، چلنے پھرنے، کھانے پینے، سننے دیکھنے کی قوتیں زیادہ عرصہ تک قائم رہیں گی۔ آپ زیادہ عرصہ تک کمانے کے قابل رہیں گے۔ کسی کی محتاجی سے مالی طور پر اور جسمانی طور پر بچ جائیں گے۔ غیر متوازن خوراک آپ کو جلدی بوڑھا کر دے گی۔ آپ کے اوپر محتاجی کا زمانہ جلدی لے آئے گی۔
میں پچیس تیس سال کے مضبوط اعصاب کے مالک جوانوں سے پوچھتی ہوں آپ نے اپنے بڑھاپے کے لئے کیا تدابیر اختیار کیں؟
آپ نے کئی بوڑھوں کو روتے دیکھا ہو گا کہ ہم نے جوانی میں سارا روپیہ پیسہ مختلف رشتوں پر لگا دیا۔ اب کوئی رشتہ بھی بات نہیں سنتا۔ یہ بد انتظامی ہے۔ یعنی مِس مینجمنٹ ہے۔ یہ قربانی نہیں بیوقوفی ہے۔ قربانی بھی اسی پر فرض ہے جو قربانی کے قابل ہے۔
آج ہی سوچیں کہ آپ نے خرچ کے ساتھ ساتھ بچت بھی کرنی ہے۔ اپنی ذات کو پس پشت ڈال کر تعلق داریاں نہ نبھائیں۔ اپنی ذات کی حق تلفی نہ کریں۔ ہشاش بشاش رہیں۔