آج کل ہر طرف نظر دوڑاو لوگ مبتلائے پریشانی اپنی مصیبتوں کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔ کوئی اپنے روزگار سے پریشان ہیں کوئی بڑھتی مہنگائی کا سامنا نہیں کر پا رہا کسی کو بچوں کی تعلیم یا شادی کی فکر ہے کوئی اپنی صحت کے بارے میں مضطرب ہے یعنی ہر کوئی کسی نہ کسی مسئلے سے دوچار ہے اس کائنات میں کوئی بھی فرد تکلیف سے مستثنیٰ نہیں۔

 ہم نے قرآن پاک کو صرف تلاوت کرنے، مردوں پر پڑھنے اور قرآن خوانی کی مجلس میں پڑھنے کے لئے رکھا ہوا ہے اور اس کی آیات کے معنی سمجھتے ہوئے اس کو زندگی پر لاگو نہیں کرتے، آپ جیسے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 156 میں ہے

 انا للہ وانا الیہ راجعون

بے شک ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں

 عموما لوگ اس آیت کو کسی کی وفات پہ بوقت تعزیت پڑھتے ہیں، جب کہ یہ آیت کسی بھی بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی تکلیف کے لیے پڑھنے کا حکم ہے کسی بھی بیماری ،مشکل، مصیبت، خوف، مال یا کسی نعمت کی کمی، گمشدہ اشیاء کی تلاش، ڈپریشن کی صورت میں اس آیت کو پڑھنے سے دل سے بوجھ اترتا ہے، صبر تقوی پیدا ہوتا ہے اور رحمت الہی نازل ہوتی ہے ۔ اس آیت میں اقرار بادشاہت ہے یعنی جو کچھ بھی ہے سب اللہ کا ہے اور ہمیں کیا ہر چیز کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ۔ مومن کی تکلیف کو اللہ اس کے لئے کفارہء گناہ بنا دیتا ہے۔ پھر صبر کے بعد اللہ کی طرف سے دی گئی مصیبت پر راضی ہو تو اللہ سے اجر بھی مانگنے کا حکم ہے قرآن میں ارشاد ہے

 اللھم اجرنی فی مصیبتی واخلف لی خیرا منہا

اے اللہ جو مصیبت مجھ پے آئی ہے اس کا بہترین بدلہ عطا فرما

سو اگر ہم صرف زبان سے ہی نہیں بلکہ دل سے اللہ کی رضا میں راضی ہو کر اس سے بہتری کے دعاگو رہیں تو ڈپریشن ،پریشانی اور مایوسی ہم سے دور رہیں گی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اللہ نے سعی و حیلہ کو بھی ضروری قرار دیا ہے۔ بندہ صبر، توکل الہی اور دعا میں اخلاص کے ساتھ ساتھ ساتھ اپنی حالت کو سدھارنے کے لیے خود بھی کوشش کرے نہ کہ صرف ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہے

اناللہ و انا الیہ راجعون  

 اسکا روزمرہ کی زندگی میں ہم استعمال ‘ کوئی بات نہیں’ کہہ کر کرتے ہیں۔ یقین جانیے اس تین حرفی جملے میں اتنی طاقت ہوتی ہے کی یہ سامنے والے کے سر سے کئی من وزنی بوجھ اتار کر اسے ہلکا پھلکا کر دیتا ہے۔رشتو ں کو بچانے اور محبتیں قائم رکھنے میں اکسیر کاکام دیتا ہے۔بےشک بسا اوقات کچھ مواقع پر اس جملے کا استعمال خاصا مشکل اور دقت طلب ہوتا ہے لیکن آپ یقین کریں کہ آپکو اس ایک لمحے کی غلطی کا خمیازہ ایک عرصے تک شرمندگی ،بد مزگی  اور دلوں میں آئے فرق کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔آپ کبھی اس جملےکو استعمال کرنے کی عادت اپنالیں تولوگوں کے رویوں سے پہنچنے والی تکلیف،کسی نقصان کی اذیت یا کسی مقصد کے حصول میں ناکامی کی صورت میں یہ درد کش دوا کا کام دےگا اور بالکل اسی طرح دل میں آئے ملال کو صاف کردے گا جیسے تیز بارش میں آپکی گاڑی کا وائپر ونڈ سکرین پر آئی بارش اور دھند کو صاف کرکے آپکو راستہ دیکھنے اور اپنی منزل پر پہنچنے میں مدد دیتا ہے۔

لیکن بسا اوقات جب بارش بہت طوفانی صورت اختیار کر جائے اور وائپر کے استعمال کے باوجود آپکو صحیح راہ سجھائی نہ دے تو گاڑی کو ایک سائیڈ پر کھڑا کرکے طوفان کے تھمنے کا انتظار کرنا چاہیے، اسی طرح اگر تکلیف حد سے بڑھ جائے تو ذات الہی پر بھروسہ رکھتے ہوئے اس کے مداوےکے اسباب کیے جانا بھی ضروری ہیں ۔

،کوئی بات نہیں’ کے جملےکی جہاں بہت برکات ہیں وھاں خیال رکھا جائے کہ یہ آپ کو اپنی زمہ داریوں سے چشم پوشی، بےجا زیادتی کو برداشت کرنے اور خود کو احتساب سے بچانے کی جانب نہ لے جائے

“کوئی بات نہیں ہے کو اگر ہم مزید آسان الفاظ میں یا پنجابی زبان میں لیں تو کہا جاتا ہے “اوہ جانے

“اوہ جانے” کا جہاں مطلب کوئی بات نہیں ہوتا ہے وہاں اس کا مطلب یہ بھی لیا جاتا ہے کہ وہ ہستی جانے جو کہ سب سے اوپر ہمارے لیے بیٹھی ہے ،ہماری ہر بات، ہماری نیت بلکہ ہمارے دلوں میں پائے جانے والے وسوسوں تک سے آگاہ ہے، یعنی خداے پاک برتر کی ہستی ۔

اب اس طرح “اوہ جانے” کہنے سے ہم ایک تو ‘کوئی بات نہیں ہے’ کہہ دیتے ہیں اور دوسرے ہم اپنے تمام معاملات، مسائل اور پریشانیاں اللہ کی ذات کے سپرد کر کے پرسکون ہو جاتے ہیں  کہ وہ ان کو بہتر طریقے سے حل کر سکتا ہے۔