ہر کوئی آجکل جلدی میں ہوتا ہے، عجیب سی افراتفری کا عالم ہے۔ لیکن غور کریں تو یہ سب کچھ تو ہم خود اپنے بچوں کو سکھاتے ہیں۔
بچے کی سکول جانے کی عمر ہو تو ہم اس کو اٹھانے میں کہتے ہیں جلدی اٹھو ورنہ دیر ہو جائے گی، پھر واش روم میں بھی جلدی کی ہدایت کی جاتی ہے، اس کے بعد اسے جلدی جلدی یونیفارم اور جوتے وغیرہ پہنا کر جلدی جلدی ناشتہ ختم کرنے کو کہتے ہیں پھر کہا جاتا ہےجلدی گاڑی میں بیٹھو آرام سے کیوں چل رہے ہو، اسکول کے دروازے پر پہنچ کر بھی جلدی اترنے کا کہا جاتا ہے کہ پچھلی گاڑیاں ہارن بجا رہی ہے یا اسکول کا گیٹ بند ہو جائے گا، اسکول سے واپسی پر پھر جلدی جلدی گاڑی میں بٹھایا جاتا ہے کہ زیادہ رش ہو جائے گا، پھر گھر آکر اسے جلدی جلدی یونیفارم بدل کر کھانا کھانے کو دیا جاتا ہے، اور کھانا بھی جلد ختم کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے کہ قاری صاحب کے آنے کا وقت ہے جلدی کھاؤ، قاری صاحب سے پڑھنے کے بعد جلدی جلدی تھوڑا سا آرام کرنے کا کہا جاتا ہے، پھر کھیل کا ٹائم ہو جاتا ہے اور اس میں بھی جلدی مچا دی جاتی ہے کہ کھیل ختم کرو،سکول ہوم ورک اور پڑھائی کرنی ہے، اسکول ہوم ورک بھی جلدی جلدی نپٹا کر جلدی جلدی اپنا بیگ سنبھالنے کو کہا جاتا ہے، اور پھر رات کا کھانا جلدی جلدی کھلاکر جلدی جلدی سونے کی ہدایت کی جاتی ہے تاکہ صبح جلدی اٹھا جا سکے۔
سو دیکھیں ہم ایک معصوم بچے کو جب دن کے آغاز سے رات سونے تک بے تحاشہ مرتبہ ’جلدی جلدی‘ کا جملہ کہیں گے تو یہ جملہ اس کے اعصاب پر سوار ہوکر اس کی شخصیت کا حصہ بن جائے گا اور پھر ہم شکایت کریں گے کہ تمہیں تو ہر وقت ہر کام کی جلدی پڑی ہوتی ہے، کوئی کام تو آرام سے کر لیا کرو۔