ایک بڑی چادر کو مخصوص انداز میں گرہیں لگا کر کندھے پر ڈالے، لاٹھی ٹیکتے ایک ضعیف بھکارن ہر جمعرات دروازے پر آ کر زمین پر بیٹھ جاتی۔ اپنے مخصوص انداز میں باسیوں کو پکار کر ’’خیر‘‘ مانگتی۔ دادی اماں کبھی اس کی چادر میں آٹا ڈال دیتیں کبھی ہتھیلی پر چند سکے رکھ دیتیں۔ وہ دعائیں دیتی اٹھتی اور سامنے والے گیٹ پر جا بیٹھتی۔ ایک دن میں نے اس بھکارن کی حالت زار دیکھ کر پوچھا۔
آپ کے بیٹے کیا کام کرتے ہیں؟
بھکارن: اپنا کاروبار کرتے ہیں۔
میں: کہاں؟
بھکارن: سودی ارب (سعودی عرب)۔
میں (حیرت اور بے یقینی کے عالم میں): کاروبار کیا ہے؟
بھکارن: یہ ہی جو میں کرتی ہوں۔
میں: ہائیں کیا مطلب؟ (میری آنکھیں پوری کی پوری کھل گئیں۔)
بھکارن (اطمینان سے): یہ ہی مانگنے والا
میں: کیاااااااااااا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھکارن: ہاں جی بہت کما لیتے ہیں۔
ایک دن گیٹ پر آنے والی جوان بھکارن سے کہا کہ جھاڑو لگا دو پھر پیسے دوں گی۔ نخوت سے کہتی ’’جتنا وقت جھاڑو لگانے پر لگے گا۔ اتنی دیر میں کئی گھر پھِر لوں گی‘‘ یہ کہہ کر وہ ساتھ والوں کی گھنٹی بجانے لگی۔ اور میں دانت پیستی رہ گئی۔
عام طور پر جوان، صحیح سلامت، ہٹے کٹے پیشہ ور بھکاریوں کو میں ایک روپیہ بھی نہیں دیتی۔ بلکہ دوسروں کو بھی منع کرتی ہوں کہ ان کو بھیک دے کر ان کی حوصلہ افزائی نہ کریں۔ جب ان کو مانگ کر کھانے کو ملتا رہے گا تو کیوں محنت کر کے کما کر کھائیں گے۔ نسل در نسل فارغ رہ کر کھائیں گے۔
جو معذور بھکاری ریلوے سٹیشن اور سخت گرمی میں تپتی سڑکوں پر سامنے پیالہ رکھ کراوندھے منہ پڑے ہوتے ہیں۔ یہ ا غواکاروں کا کاروبار ہے۔ دور دراز کے علاقوں سے بچوں، جوانوں ، بوڑھوں کو اٹھا کر ان پر تشدّد کر کے ان کو ذہنی اور جسمانی طور پر ا پاہج کیا جاتا ہے۔ اور پھر یوں ہی سخت دھند اور سخت گرمی میں سڑکوں پر پھینک دیا جاتا ہے۔ وہ لوگ کسی وقت میں آ کر اس پیالے سے رقم نکالتے ہیں اور روٹی کا ٹکڑا ڈال جاتے ہیں۔ تاکہ زندہ رہیں اور ہمارا کاروبار چلتا رہے۔ اگر آپ ان بھکاریوں کو بھیک دیتے ہیں تو آپ اغواکاروں کی مدد کر رہے ہیں۔
بھیک صرف بھیک نہیں ہے کہ آپ نے نیکی سمجھ کر چند روپے دے دئیے اور بات ختم ہوئی۔ بلکہ بھیک سے پھیلنے والے مفاسد کی فہرست بہت لمبی ہے۔ اٹھائی گیرے، اچکے اور جیب کترے اس کی مثال ہیں۔ اسی لئے ہمارے مذہب نے بھی بھیک مانگنے والوں کی مذمت کی ہے۔
حجۃ الوداع کے موقع پر دو شخص نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اس وقت صدقات تقسیم فرما رہے تھے ان دونوں نے بھی مانگا۔ رسول کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ایک نظر دونوں پر ڈالی۔ دیکھا کہ تن درست، توانا اور کمانے کے قابل ہیں۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ اگر میں چاہوں تو اس میں سے تم دونوں کو بھی دے سکتا ہوں۔ لیکن سن لو! کہ اس میں کسی مال دار اور کمانے کے قابل تن درست و توانا کا کوئی حصہ نہیں۔‘‘ ( ابوداؤد)
گویا تندرست افراد کمزور و لاچار افراد کے حق پر ڈاکہ ڈالنے والے ہیں۔ اور اگر آپ ان پیشہ ور ڈاکوؤں کی مدد کرتے ہیں تو اس کا سیدھا سادھا مطلب ہے کہ اصل حق دار کو محروم کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔
مارکیٹ جائیں تو اکثر بوڑھے کمزور لوگ غبارے، فٹ بال، چھوٹے موٹے کھلونے بیچ رہے ہوتے ہیں۔ یا کسی جگہ چھوٹے بچے ویٹر کے طور پر کام کر رہے ہوتے ہیں۔ میں صدقے کے پیسے زیادہ تر ان ہی لوگوں کو دے دیتی ہوں۔
ایک دن ایک غبارے بیچنے والے باریش کمزور سے بابا جی کو میں نے کچھ رقم دی تو انہوں نے معذرت کر لی۔ رات کا وقت تھا۔ اور روشنی کچھ خاص نہیں تھی۔ مجھے ان کے لہجے اور پھر چہرے پر غور کرنے سے پتہ چلا کہ پٹھان ہیں۔ ان کا لباس اور جوتے خستہ تھے۔ میں نے ان کی حالت دیکھتے ہوئے اصرار کیا کہ آپ رکھ لیں۔ کہتے ’’بیٹا دیکھو میں اپنا کام کر رہا ہوں۔ مجھے صدقے کے پیسے نہیں لگتے۔‘‘ لیکن ان کی شکستہ حالی نے مجھے قدم نہ بڑھانے دئیے۔ مجھے ان پر ترس آتا رہا۔ زیادہ اصرار کیا تو کہتے۔ ’’چلومیں رکھ لیتا ہوں۔ ایسے شخص کو جانتا ہوں جو بہت ہی غریب ہے۔ آپ کی امانت اس تک پہنچا دوں گا۔‘‘ اللہ !۔۔۔ خود داری کا عالم دیکھئیے۔
اپنے لئے، اپنے بچوں کے لئے اور اپنے ملک کے مفاد کی خاطر ہٹے کٹے بھکاریوں کی حوصلہ شکنی کریں تاکہ جرائم میں کمی واقع ہو۔ روزانہ دس، بیس یا سو پچاس دینے کی بجائے مہینے میں ایک دفعہ اپنی استطاعت کے مطابق کسی خوددار سفید پوش کو رقم دیں بے شک وہ دو سو، پانچ سو یا ہزار ہی کیوں نہ ہوں۔ پیشہ ور بھکاریوں یا جرائم پیشہ افراد کو نہیں بلکہ حق حقدار کو ملنا چاہیے۔