ابھی کچھ عرصہ پہلے ملازمت پیشہ خواتین کی تعداد بہت کم تھی۔ اگر ہم اپنی نانی اماں اور دادی جان کی بات کریں تو وہ گھریلو خواتین تھیں۔ یقیناً آپ نے اپنی دادی، نانی یا والدہ سے ساس کے مظالم کی المناک داستانیں سن رکھی ہوں گی۔ اور یہ شکوہ بھی کہ میاں صاحب کو ہمارے اس حال کی قطعاً کوئی پرواہ نہیں تھی۔ اگر انہیں پرواہ تھی تو صرف یہ کہ میری، میرے والدین، بہن بھائیوں اور رشتہ دادوں کی حکم عدولی نہ کی جائے۔ اگر ایسی کوئی شکایت ملی تو فوراً میکے پہنچا دوں گا۔ یہ صرف پچھلے زمانوں کی بات نہیں، آج بھی ہر جائز و ناجائز بات اس دھمکی سے منوا لی جاتی ہے کہ میکے چھوڑ آؤں گا۔

بیوی تو پاؤں کی جوتی ہے جب چاہا بدل لی۔ یہ مشہور جملہ ہے جو تقریباً ہر عورت نے سن رکھا ہے۔ یہ یا اس طرح کے دوسرے ذلّت آمیز جملے وہ زہر آلود تیر ہیں جنہوں نے عورت کی سوچ کا رخ بدلا۔ یہاں تک کہ عورت کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اسے معاشی طور پر خود مختار ہونا چاہئے تاکہ معاشی کمزوریوں کے سبب ظلم سہتے رہنا اس کا مقدر نہ بن جائے۔

بعض خواتین مجبوری میں ملازمت کرتی ہیں۔ باپ اور شوہر کا سایہ سر سے اٹھ گیا، گھر کا سربراہ معذور ہے کما نہیں سکتا یا اتنا کم کماتا ہے کہ بنیادی ضروریات ہی پوری نہیں ہوتیں۔ بنیادی ضروریات زندگی کیا ہیں؟ ماہر معاشیات کارل ماکس کے بقول روٹی، کپڑا اور مکان بنیادی ضروریات ہیں۔ جب کہا جاتا ہے بنیادی ضروریات زندگی خوراک ، لباس اور رہائش ہیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے متوازن غذا ، مناسب لباس اور آرام دہ یا پرسکون رہائش۔ سوچنے کی بات ہے کہ دس لوگ کھانے والے اور ایک فرد کمانے والا ہو تو کیا ہر مرد تن تنہا چار بچوں میاں بیوی ، ماں باپ اور بہن بھائیوں کی بنیادی ضروریات پوری کر سکتا ہے؟ متوازن غذا وہ ہوتی ہے جس میں اناج، پھل ، سبزیاں، انڈے، دودھ اور گوشت شامل ہوں۔ اسی طرح پر سکون رہائش وہ ہوتی ہے جہاں آپ آرام سے نیند پوری کر سکیں۔ سخت گرمی اور سخت سردی سے بچاؤ ممکن ہو۔

شوقیہ ملازمت کرنے والی خواتین کی تعداد انتہائی کم ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایک برطانوی میگزین نے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والی پانچ ہزار ملازمت پیشہ خواتین کا انٹرویو لیا۔ اس سروے میں کہا گیا تھا کہ

کہ اگر معاشی مجبوریاں نہ ہوں تو اڑتالیس فی صد(%48) عورتیں صرف آرام کرنا پسند کریں گی، بتیس فی صد (%32) عورتیں گھرداری اختیار کرنے کا فیصلہ کریں گی اور صرف بیس فی صد(%20) عورتیں ملازمت جاری رکھنا چاہیں گی۔ اگر ایسا سروے اسلامی معاشرے میں ہو تو گھرداری اختیار کرنے والی عورتوں کے فیصد کا تناسب سو فیصد بڑھ جائے گا۔ اسلام نے عورت کو کمزور جانتے ہوئے حقوق اتنے دے دئیے ہیں کہ عورتیں گھر میں رہنا پسند کریں گی۔ کون سی عورت  ہے جو چاہے گی کہ گھر کے کام بھی کرے اور پھر ملازمت بھی کرے۔ لیکن افسوس کہ  ہمارا معاشرہ اور ہمارا پدر سری نظام عورت کو حقوق نہیں دیتا۔

عورت کا حق ہے کہ اسے عزت کے ساتھ گھر میں رہنے دیا جائے۔ اور اس پر کھلے دل سے خرچ کیا جائے۔وراثت میں حق دار ٹھہرایا جائے۔ مرد حضرات بجائے اسلامی تعلیمات کے مطابق حقوق دینے کے، عورت کی اسی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر ظلم کرنے لگتے ہیں۔ ایک طرف مرد حضرات چاہتے ہیں کہ عورت کو نوکری نہیں کرنی چاہیے بلکہ چار دیواری میں رہ کر گھر اور بچے سنبھالنے چاہئیں۔ دوسری طرف یہ ہی مرد حضرات کہتے ہیں تم کرتی کیا ہو سارا دن؟ یعنی کام تو ہم کرتے ہیں۔ گھر سے باہر جاتے ہیں۔ کما کر لاتے ہیں۔یہ تو ہوا کام ، سارا دن گھر میں رہنا بھی کوئی کام ہے۔ اس طرح سے احسان جتا کر بےقدری کرتے ہیں۔ بات بات پر اپنی کمائی کے طعنے دیتے ہیں۔ خود کو رازق اور سیاہ و سفید کا مالک  سمجھتے ہیں۔

آج بھی ایسے گھر موجود ہیں جہاں بہو دس روپے کی چیز لینے کے لئے ساس سسر کا منہ دیکھتی ہے۔ مرضی ہے تو دیں ورنہ بے عزتی کرکے بٹھا دیں۔ یعنی ایک مرد کو اپنے حقوق ہی معلوم نہیں۔ بیوی بچوں کے حقوق تو بعد میں آتے ہیں۔ ابھی بھی ایسے مرد موجود ہیں جو اچھا کماتے ہیں لیکن بیوی کو جیب خرچ ایک ہزار بھی نہیں دیتے۔ جنہیں وہ اپنی مرضی سے خرچ کر سکے۔

کیا یہ وہ اسلامی معاشرہ ہے جہاں عورت گھر کی ذمہ داریاں سکون سے گھر میں رہ کر نبھائے اور مرد کما کر عزت سے کھلائے؟ کیا اس اہانت آمیز سلوک سے عورت مختلف وساوس اور تحفظات کا شکار نہیں ہو گی ؟ معاشی طور پر خودمختار بننے کا نہیں سوچے گی؟ اپنے سر پر اپنا آسمان اور  پاؤں کے نیچے اپنی زمین نہیں چاہے گی؟

قارئین و قاریات! میاں بیوی  زندگی کی گاڑی کے دو پہئیے ہیں۔

ان دونوں میں سے ایک پہیہ اگر ناروا سلوک کے دباؤ سے پھٹ جائے تو دوسرا پہیہ بھی بےکار ہے۔  زندگی کی گاڑی نہیں چل سکتی۔ مرد اور عورت دونوں کو خودمختار ہونا چاہیے۔ خودمختاری بری چیز نہیں۔ہاں تسلط فساد کا سبب ہے۔ کوئی مرد یا عورت اپنی حیثیت کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اگر کسی فرد کے حقوق غصب کرنے کی کوشش کرے گا تو ایسا متوازن معاشرہ کبھی بھی قائم نہیں ہو سکتا جس کے ہم یا آپ خواہاں ہیں۔