ہمیں یہاں پہنچے پانچ منٹ ہوئے تھے کہ ایک جوان شخص ایک بزرگ کے ساتھ کیبن میں داخل ہوا۔ ریل کی سیٹی بجی اور جوان یہ جا وہ جا۔ گہرے رنگ کی  عام سی ویسٹ کوٹ میں ملبوس بزرگ میرے سامنے والی برتھ پر بیٹھے مسلسل کھڑکی سے باہر دیکھ رہے تھے۔

مجھے یہ جانچنے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی کہ میری موجودگی بزرگ  کے لیے   ماحول کو غیر آرام دہ بنا رہی تھی۔ جلد ہی وہ کیبن سے باہر نکل گئے۔

پندرہ بیس منٹ گزرنے کے بعد بھی واپس نہ آئے تو مجھے ہلکی سی پریشانی ہوئی۔ میں نے کیبن کا دروازہ کھول کر جھانکا تو سامنے ہی جائے نماز بچھائے نماز پڑھنے میں مصروف تھے۔ آدھا گھنٹہ مزید گزر گیا۔وہ ابھی تک واپس نہ آئے تھے۔ بزرگ بڑی عمر کے اور انتہائی شریف دکھائی دیتے تھے۔

“شاید   میری وجہ سے واپس نہیں آ رہے تو کیا چار گھنٹے وہ ایسے ہی گزار دیں گے؟”

یہ سوچتے ہوئے ایک بار پھر میں نے دروازے سے باہر جھانکا۔ بزرگ ادھر ہی بیٹھے ذکر اذکار میں مصروف تھے۔ باریش،  سرخ و سفید رنگ اور کوئی بال سیاہ نہ تھا۔

اس بار میں نے مارے الجھن کے پوچھ ہی لیا۔  

“انکل آپ کیا ادھر ہی بیٹھے رہیں گے؟”  

بزرگ نے آہستہ سے جواب دیا۔ “میں مغرب کی نماز پڑھ کر آؤں گا۔”  

اب جو وہ کیبن میں داخل ہوئے تو  پھُرتی سے اوپر والی برتھ پر چڑھ کر انہوں نے مجھے اور میاں کو حیران کر دیا۔  ہم دونوں انہیں ان کی عمر کے لحاظ سے بہت کمزور سمجھ رہے تھے۔ میاں کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا تو انہوں نے بتایا کہ میری عمر اٹھہتر سال ہے۔  چستی اور صحت کا راز بتاتے ہوئے انہوں نے کہا  کہ میں صبح فجر کے وقت بیدار ہوتا ہوں۔ نماز کے بعد واک کرتا ہوں۔ قرآن مجید پڑھتا ہوں۔ اور پھر دکان پر چلا جاتا ہوں۔ میں گیزر بناتا ہوں۔ سارا بازار سو رہا ہوتا ہے جب دکان کھولتا ہوں اور سب سے آخر میں دکان بند کرتا ہوں۔

میرے بیٹے یونیورسٹیز سے فارغ التحصیل اور بہت اچھا کماتے ہیں۔ میرے پاس سائیکل تک نہ تھی ۔میں کوئی جدی پشتی امیر، زمین دار یا بڑا آدمی نہیں ہوں۔  میں چِٹا ان پڑھ ہوں لیکن میں نے سب بچوں کو محنت کر کے پڑھایا لکھایا ہے۔ اس دوران میں نے کئی کام بدلے۔ انتہائی کم اجرت پر مزدوری بھی کی۔ جو مجھے ٹرین میں چھوڑنے آیا تھا وہ ایک ادارے میں انجینئر ہے اور بڑے ڈبل پورشن گھر کا مالک ہے۔  اس وقت جس بیٹے کے پاس جا رہا ہوں وہ ایک غیر ملکی کمپنی میں نوکری کرتا ہے۔ اس کے آگے پیچھے ملازم ،ڈرائیور اور بڑی گاڑیاں ہیں۔ وہ ایک بہت بڑی کوٹھی میں رہتا ہے۔ یہ بتاتے ہوئے بزرگ کے چہرے سے خوشی اور اطمینان جھلک رہا تھا۔

“آپ اس عمر میں ٹرین میں سفر کر رہے ہیں ۔ بیٹے  سے کہتے کہ وہ ڈرائیور اور گاڑی بھیج دے۔”  

میاں نے غالباً ہمدردی جتائی تھی۔

بیٹے نے مجھے یہ ہی آفر کی تھی لیکن ایسی شیخیاں بگھارنے کی مجھے عادت نہیں ہے۔ نہ ہی میں خواہ مخواہ ”  

بات جاری  رکھتے ہوئے بزرگ نے بتایا۔“دوسروں کو تکلیف دیتا ہوں۔

بیٹے تو یہ بھی کہتے ہیں  کہ اب آپ کوئی کام نہ کریں۔ لیکن مجھے فارغ بیٹھ کر بچوں پر بوجھ بننا پسند نہیں۔”  

 “گو کہ وہ سب اچھے ہیں لیکن اپنی کمائی خواہ کتنی ہی کم ہو ایک خوددار مرد کو بہت عزیزہوتی ہے ۔

ایک چِٹا ان پڑھ  شخص کیسی شعور کی باتیں کر رہا ہے۔ “بابا جی اصل بڑے آدمی تو آپ ہیں.” میں نے دل ہی دل میں سوچا۔ 

کسی پچپن ساٹھ سال کے صحیح سلامت فرد سے پوچھیں کہ آپ کوئی کام کیوں نہیں کرتے

تو جواب کچھ یوں ہوتے ہیں۔

“میرے بیٹوں نے کہا ہے کہ ابا جی آپ آرام کریں۔ ہم کمائیں گے”

“اولاد کمانے لگی ہے اب۔ میں بیٹھ کر کھاتا ہوں۔”

“ساری عمر کام ہی کریں۔ اولاد کو کس لئے پالا اور پڑھایا لکھایا ہے۔”

یہ جذباتی اور  کاہل لوگوں کا بڑا مسئلہ ہے کہ جوان اولاد کے ہوتے ہوئے اگر کوئی ساٹھ ستر سالہ شخص محنت کر کے کما رہا ہے تو اس کی اولاد کو لعن طعن کیا جاتا ہے۔ اس رویے کے رد عمل میں جذباتی بیٹا نوکری پر لگتے ہی اعلان کر دیتا ہے کہ اب میرا باپ کیوں کر کمائے گا۔ اندھے کو کیا چاہیٔے دو آنکھیں۔ کاہل کو کیا چاہیے؟ بغیر محنت کے دستیاب سہولیات۔

کیونکہ مجموعی طور پر ہم  بچے، جوان، بوڑھے تعلیم یافتہ یا ان پڑھ  محنت کو وبال سمجھنے والے لوگ ہیں۔  اس لعن طعن کے پیچھے بھی یہ ہی سوچ کارفرما ہوتی ہے کہ جس کی عمر کے ساتھ ساٹھ کا ہندسہ لگ چکا ہے اس شخص پر ظلم ہے کہ وہ جوان بیٹوں کے ہوتے ہوئے کما کر کھائے۔