دنیا میں کوئی بھی اجھا یا برا نہیں ہوتا بس لوگ مختلف ہوتے ہیں ۔کوئی رنگ حسین یا بدہیت نہیں ہوتا بلکہ آپ کی اپنی پسند ہوتی ہے۔ کوئی بھی کھانا لذیذ یا بد مزہ نہیں ہوتا بلکہ آپ کا اپنا ذائقہ ہوتا ہے۔ کوئی بھی منظر دل کش یا ویران نہیں ہوتا بلکہ یہ آپ کے اندر کا موسم ہوتا ہے ۔کوئی بھی شے مہنگی یا سستی نہیں ہوتی بلکہ آپ کا اپنا معیار ہوتا ہے.
ہم کوئی ultimate criteria یعنی حتمی معیار مرتب کرنے والے نہیں ہیں کہ منہ بھر کرایک دم سے کسی چیز پر بہت اچھا یا بہت برا ہونے کا لیبل لگا دیں کیونکہ یہ تو ہر ایک کی اپنی اپنی سوچ، نظریہ، پسند اور معیار ہے۔ ہو سکتا ہے کوئی ایک چیز ، ایک بات یا کوئی شخص ہی آپ کو بہت زیادہ ناپسند ہو لیکن دوسرے کو وہ بہت پسند ہو ،تو ہم ایسا تو کہہ سکتے ہیں کہ فلاں چیز مجھے پسند نہیں ہے یا مجھے بہت پسند ہے، لیکن یہ کہنا تو کسی طرح بھی درست نہیں ہے کہ فلاں چیز تو بہت ہی بری ہے یا بہت ہی اچھی ہے ۔ہاں البتہ اگر کوئی بات خلاف حکم الہی، غیر شرعی ہو ، کوئی شخص حرام کاری اور اخلاقی و مذہبی گناہوں کا مرتکب ہورہا ہو تو اسے برا سمجھا جاسکتا ہے لیکن گناہ و ثواب اور سزا و جزا کا کام پھر بھی آپ کا نہیں ہے آپ صرف اس کی اصلاح کے لئے اسے نصیحت کر سکتے ہیں یا اس کی بہتری کے لئےدعاگو ہو سکتے ہیں۔ آپ کا کام صرف امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی تشہیر کر نا ہے یعنی اچھائی کو پھیلائیں اور برائیوں کو روکنے کی کوشش کریں، ہاتھ سے، کردار سے یا پھر زبان سے اور اگر یہ بھی نہ کرسکیں تو برائی کو برا جاننا بھی ایمان کی ہی ایک صورت ہے، (بےشک کہ یہ ایمان کی کمزور ترین صورت ہے) اور کسی کی جزا اور سزا کا معاملہ اللہ کے پاس ہی رہنے دیں یہ اس کے کرنے کے کام ہیں آپ کے نہیں،آپ صرف اپنے ہی اعمال کے خود ذمہ دار اور جواب دہ ہیں۔ ہاں البتہ اپکی اولاد یا آپ پر انحصار کرنے والے لوگوں ,آپ کے طالب علم, لواحقین اور رشتے داروں کی اصلاح اور نیکیوں کا پرچار آپ کا فرض ہے لیکن کسی کو برا یا اچھا گردانا آپ کے کرنے کا کام نہیں ۔ہو سکتا ہے کہ آپ کو جو شخص بہت برا لگتا ہوں وہ اللہ کے نزدیک ہہت پسندیدہ ہو اور آپ جسے پسند کرتے ہوں وہ اللہ کے پسندیدہ لوگوں کی فہرست میں نہ ہو۔اللہ کی ذات تو غفور الرحیم ہےکسی گناہگار کی ایک چھوٹی سی نیکی کی ادا پر وہ اس کے گناہوں کی بخشش کر دیتا ہے اور اسے جنت کا حقدار قرار دیتا ہے اور بعض اوقات کسی عبادت گزار اور دین دار کا تکبر یا ایک چھوٹی سی خطا اس کی عمر بھر کی ریاضت اورتمام اچھائیوں کو ملیامیٹ کر دینے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔
سو ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا میں اپنے آنے کا مقصد جانا جائے، اپنا قبلہ درست رکھا جائے۔دنیا میں نیکیاں اور بھلائیاں کی جائیں، دوسروں کا درد بانٹا جائے، اللہ اور اس کے رسول کو دل میں اولین جگہ دیکر احکام الہی اور اراکین اسلام کی پابندی کی جائے اور انسانیت کے کرنے والے کام کیے جائیں، اللہ کی کرنے والے کام اسے ہی کرنے دیں ۔خلیفۃالارض بنیں اللہ بننے کی کوشش نہ کریں اور دوسروں کو پرکھنے اور جانچنے کی بجائے اپنے آپ کو جانچا جائے اور حتی الامکان اپنے آپ کو درست رکھنے کی کوشش کی جائے کیونکہ روزمحشر آپ سے کسی اور کا نہیں بلکہ صرف اور صرف آپ کا حساب ہوگا ۔آپ نے دنیا کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا لیکن ہاں اپنا ٹھیکہ ضرور لے رکھا ہے