ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح

دسمبر 25  ملت کے پاسبان،عظیم رہنما،عظیم الشان لیڈر،  بابائے قوم، بانی پاکستان،معمار پاکستان، قائد اعظم محمد علی جناح کا یوم پیدائش ہے آج کے اس خاص دن کے موقع پر ہم اپنے قائد کی زندگی پر مختصراً نظر ڈالنے کے ساتھ آپ کی شخصیت آپ کی زندگی کے کچھ واقعات اور قول و فرمان بھی جانیں گے

آپ 25 دسمبر 1876 وزیر مینشن کی دوسری منزل کراچی میں پیدا ہوئے جو اب پاکستان میں واقع ہے مگر اسوقت ممبئی کا حصہ تھا۔ آپ کا پیدائشی نام محمد علی جناح بائی ہے آپ کا تعلق کاٹھیاواڑ گجرات کے گاؤں پنیلی سے تھا۔آپ کی پیدائش سے قبل ہی آپکے والد جناح بائی پونجا کراچی آگئے تھے جو پیشہ سے  ایک تاجر تھے آپکی والدہ میٹھی بائی کا تعلق بھی اسی گاؤں سے تھا۔ میگھ جی آپ کے پڑ دادا تھے۔ پونجا بھائی میگھ جی آپ کے دادا تھے۔ آپکے دو تایا  تھے نتھو پونجا اور دالجی پونجا اور ایک پھوپھی من بائی تھیں۔ آپ سات بہن بھائی تھے دو بھائی احمد علی جناح, بندے علی جناح  اور چار بہنیں رحمت بائی, مریم بائی, شیریں بائی اور فاطمہ علی جناح تھیں۔آپکے والدین گجراتی کھوجا خاندان سے تھے اور گجراتی زبان بولتے تھے۔  آپ نے 6 سال کی عمر میں مدرسے سے تعلیم حاصل کی اور دس سال سے کم عمر میں ممبئی میں خالہ کے پاس رہ کر  ابتدائی تعلیم گوکل داس تیج پرائمری اسکول اور کیتھیڈرل اسکول سے حاصل کی۔ کراچی واپس آئے تو سندھ مدرستہ الاسلام اور کرسچن سوسائٹی ہائی اسکول سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد ممبئی ہائی اسکول سے میٹرک پاس کیا۔ 1892 میں آپ کے والد کے دوست نے محمد علی جناح کو اپنی شپنگ کمپنی میں ملازمت کے لیے برطانیہ بھیجنے کا مشورہ دیا جسے آپ کے والد نے قبول کرتے ہوئے آپ کو برطانیہ بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ برطانیہ جانے سے پہلے آپ کی والدہ کے بے حد اصرار پر  16 سال کی عمر میں آپ کی دور کی رشتہ دار ایمی بائی جناح سے آپ کی شادی کر دی گئی۔ لندن پہنچ کر آپ نے کچھ عرصہ ملازمت کرنے کے بعد بیرسٹری کی ڈگری حاصل کرنے کا فیصلہ کیا اور لنکنز ان میں داخلہ لے لیا  اور انگلستان کے بار میں شامل ہونے والے سب سے کم عمر  طالب علم ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ آپ برطانیہ کی تہذیب سے کافی متاثر تھے جو آگے چل کر آپ کے لباس رہن سہن رکھ رکھاؤ میں کافی نمایاں رہا۔ یہ بات بھی کم لوگ جانتے ہیں کہ لندن میں رہائش کے دوران ایک ڈرامہ کے لیے ایکٹر کی ضرورت تھی تو وہاں آپ نے ایک مکالمہ پڑھا اور آپ سلیکٹ ہو گئے آپ اتنے خوش ہوئے کہ اپنا مستقبل ایکٹر کے طور پر دیکھنے لگے  آپ نے خوشی سے والد کو آگاہ کرنے کے لیے خط لکھا کہ میں اتنے لوگوں میں منتخب کر لیا گیا ہوں اور انٹرنیشنل تھیٹر میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو گیا ہوں آپ کے والد پرانے خیالات کے مالک تھے انہوں نے جوابی خط میں لکھا کہ آپ کو جس کام کے لیے بھیجا ہے اس پر توجہ دیں یہ آپ نے کیا پیشہ اختیار کر لیا ہے اور خبردار کیا کہ کسی ایسی سر گرمی میں حصہ نہیں لینا آپ والد کے بہت طابع دار  تھے یہ پڑھ کر فکر مند ہو گئے اور کمپنی کے مالک سے معذرت کر لی کہ میرے والد کو پسند نہیں کہ میں یہ کام کروں جس پر مالک نے کہا کہ تمہارے والد کو کیا اعتراض ہے یہ تمہاری اپنی زندگی ہے،جس پر جناح نے جواب دیا کہ ہماری زندگی میں والد کی بہت اہمیت ہوتی ہے لہذا میں یہ کردار نہیں کر سکتا اور انکار کر دیا اور اس طرح  آپ نے اپنا شوق چھوڑ کر والد کی بات کو اہمیت دی۔۔جہاں آپ اتنے فرمان بردار تھے وہاں آپ قدرتی طور پر بہت ذہین و فطین  اور حاضر جواب بھی تھے لندن میں تعلیم کے دوران آپ کے ایک پروفیسر کو آپ سے مسئلہ تھا ایک روز لنچ کے دوران آپ میز پر ان کے ساتھ بیٹھ گئے یہ دیکھ کر پروفیسر نے آپ سے کہا کہ مسٹر جناح تم نہیں جانتے کہ خنزیر اور پرندہ ایک ساتھ بیٹھ کر نہیں کھا سکتے اس پر آپ نے مکمل طور پر پرسکون رہتے ہوئے فوراً کہا کہ ٹھیک ہے پھر مجھے کسی اور میز کی طرف اڑ جانا ہوگا یہ سن کر پروفیسر غصّہ میں آ گیا اور اپنی بے عزتی کا بدلہ لینے کی ٹھانی اگلے دن پروفیسر نے جناح سے پھر سوال کیا کہ اگر تمہیں راستے میں پڑے دو بیگ ملیں جس میں بسے ایک بیگ میں دولت اور دوسرے بیگ میں دانائی ہو تو تم کون سا بیگ اٹھاؤ گے آپ نے فوراً کہا کہ “دولت” جس پر پروفیسر نے تمسخر آمیز انداز میں کہا  کہ میں تمہاری جگہ ہوتا تو دانائی سے بھرا بیگ اٹھاتا جس پر پھر سے جناح نے بڑے اطمینان اور سکون سے کہا کہ ظاہر ہے جس کہ پاس جس چیز کی کمی ہوتی ہے وہ اسی کی خواہش کرتا ہے اور وہی چیز پانا چاہتا ہے  یہ جواب سن کر پروفیسر پھر شرمندہ ہو گیا ۔تعلیمی دور سے ہی آپ نے سیاست میں  بھی دلچسپی لینا شروع کر دی تھی۔ لندن میں قیام کے دوران  ہی آپ کی والدہ اور اہلیہ انتقال کر گئیں تھیں ۔19 سال کی عمر میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد  آپ ہندوستان واپس آگئے۔ آپ کی والدہ کی بیماری کے بعد  آپ کے والد کا کاروبار خسارے میں چلا گیا تھا جسکی وجہ سے آپ کو گھریلو مسائل کا سامنا ہوا لیکن آپ نے ہمت نہ ہاری اور ممبئی آکر وکالت شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا۔  1896 میں ہائیکورٹ کے رجسٹر میں اپنا نام درج کروایا اور اپنی محنت لگن سچائی انصاف پسندی کی بدولت جلد ہی نامور وکیلوں کی فہرست میں شامل ہونے لگے آپ اس وقت کے پہلے واحد مسلمان بیریسٹر تھے آپ کی مقبولیت اور کام کو دیکھتے ہوے آپ کو 1500 ماہانہ تنخواہ کی پیشکش کی گئی جسے آپ نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ میں یومیہ 1500 کمانا چاہتا ہوں۔ جس کو آپ نے  کچھ ہی عرصے میں سچ کر دکھایا اور ایک دن کی پیشی کی 1500 فیس لیتے تھے ۔   دورانِ وکالت آپ نے کافی مشکل کیس اپنی فہم و فراست سے بڑی آسانی سے جیتے ایک دن دہلی کے مسلمانوں کا ایک گروہ کافی پریشانی میں مسجد کے اوپر مندر کی تعمیر کا کیس لے کر آپ کے چیمبر میں آئے اور بتانے لگے کہ جناح صاحب ہم پر مصیبت ٹوٹ پڑی ہمیں ہندؤں کے فرسودہ نظام نے الجھا رکھا ہے قائد ملت نے ان کو تسلی سے بٹھا کر ٹھنڈا پانی پلا کر کیس کی تفصیل بتانے اور کاغذات جمع کروانے کا کہا انہوں نے تفصیل بیان کی کہ  ہم نے مسجد کی تعمیر کے لیے  ایک شخص سے جگہ خریدی ہے جس کی سطح بلندی سے 18 فٹ تک مسجد کی تعمیر کا مالک سے معاہدہ ہوا ہے اور رقم بھی ادا  کر دی گئی ہے 18فٹ اونچائی کی تعمیر کے بعد زمین کا اصل مالک ہندوستان کے قانون کے مطابق کسی اور کو  اوپر کا حصہ فروخت کرنے کا حق حاصل رکھتا ہے جب ہندوؤں کو علم ہوا  کہ ہم مسجد تعمیر کرنا چاہتے ہیں تو انہوں نے 18فٹ سے اوپر کا حصہ مالک سے مندر کی تعمیر کے لئے خرید لیا ہے  اب اگر ہندو مسجد کے اوپر مندر تعمیر کرتے ہیں تو یہ گناہ کبیرہ ہوگا ساتھ ہی  مسجد کی بے حرمتی ہے اور مسلمانوں کے صبر کا امتحان بھی۔ قائد اعظم نے کچھ دیر سوچنے کے بعد مشورہ دیا کہ آپ مسجد کی تعمیر 18 فٹ کی بجائے 17 فٹ سطح زمین سے اوپر رکھیں ایک فٹ چھوڑ دیں جس دن ہندو تعمیر کے لئے کنکریٹ لائیں آپ مجھے طلب کر لیجئے گا مسلمانوں نے ایسا ہی کیا اور مسجد تعمیر کر دی ہندو  یہ دیکھ کر خوش ہو گئے اور کنکریٹ مال اکھٹا کر کے تعمیر کے لئے آ گئے تو مسلمانوں نے قائد اعظم کو بلا لیا آپ نے مکمل تحقیق  کرنے کے بعد ہندوؤں سے پوچھا کہ آپ نے سطح زمین سے 18 فٹ اوپر کا حصہ خرید رکھا ہے؟  تو انہوں نے طنز و مزاح میں کہا  “ہاں” تو آپ نے  ان سے کہا کہ مسلمانوں نے اپنے حصے کی جگہ ابھی مکمل تعمیر نہیں کی مسجد کی اونچائی 18 فٹ اونچائی کے بجائے 17 فٹ ہے آپ چاہیں تو ایک فٹ چھوڑ کر ہوا میں اپنا مندر بنا سکتے ہیں پھر اس کیس کو جناح نے اپنی زبردست ذہانت سے مسلمانوں کے حق میں کروا لیا اور ہندوؤں اور انگریزوں کے بنائے گئے قانون کو روند ڈالا۔اسی طرح  ایک دفعہ آپ کے پاس ایک عمر رسیدہ غریب خاتون آئی اور آپ سے کہنے لگی کہ میرا بیٹا بے گناہ ہے اور اسے پھانسی کی سزا ہو گئی ہے میری مدد کریں مگر میں آپ کی فیس نہیں دے سکتی اس پر آپ نے  خاتون سے کہا کہ آپ مجھے مکمل تفصیل سے آگاہ کریں میں کیس اسٹڈی کروں گا اگر آپ کا بیٹا واقعی بے گناہ ہوا تو میں آپکا کیس لڑوں گا جب آپ کو اس کی بے گناہی کو لے کر مکمل تسلی ہو گئ تو اس کے بعد  آپ پولیس اسٹیشن پہنچے جہاں اس شخص کو پھانسی کے لیے لے جایا جا رہا تھا آپ نے وہاں موجود افسران سے کہا کہ تم اس کو پھانسی نہیں دے سکتے یہ سن کر  انہوں نے آپ کو پھانسی کا آرڈر دکھایا جس کو دیکھ کر آپ نے فرمایا کہ اس میں لکھا ہے “ہینگ” یعنی لٹکا دو یہ نہیں لکھا کہ پھانسی پر لٹکا دو اگر تم نے اسے پھانسی دی تو میں تم پر کیس کر دوں گا پھانسی روک دی گئی تو آپ نے کیس لڑ کر اس شخص کو بے گناہ ثابت کر کے بری کروا لیا اس واقعے کے بعد پھانسی کے آرڈر پر “ہینگ ٹل ڈیتھ” لکھا جانے لگا۔ ایسے کئ واقعات اور بھی ہیں جن کو ایک نشست میں بیان کرنا آسان نہیں لیکن ان واقعات کے بعد یہ جاننا قطعی مشکل نہیں کہ آپ انتہائی اصول پسند انصاف پسند حق سچ کے لیے آواز اٹھانے والے انسان تھے۔ آپ کے لیے علامہ اقبال نے فرمایا  تھا کہ “محمد علی جناح نہ تو خیانت کر سکتے ہیں نہ ہی خریدے جا سکتے ہیں” آپ کبھی بکے نہیں جھکے نہیں۔ ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت کو دیکھتے ہوئے انگریزوں کی ہندوستانیوں سے بد سلوکی، امتیازی اور ہتھک آمیز سلوک کے خلاف آواز اٹھائی 1904 میں  آپ نے کانگریس میں  شامل ہو کر سیاسی جد وجہد کا آغاز کیا اور 1906 میں آل انڈیا کانگریس میں  باقاعدہ شمولیت اختیار کر لی کچھ عرصہ میں ہی گاندھی کے حقیقی مقاصد آپ کے سامنے آنے لگے جس میں مسلمانوں کو محکوم بنانا شامل تھا اور منشور میں مسلمانوں کی حق تلفی بھی کی گئی گاندھی کی ہندو پرست پالیسیوں کو دیکھ کر قائد اعظم نے کانگریس چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور 1913 میں مسلم لیگ کے ساتھ شامل ہوگئے 1916 میں لکھنؤ میں ہونے والے اجلاس میں  آپ کو صدر منتخب کر لیا گیا اسی سال آپ کی کوششوں سے کانگریس اور مسلم لیگ میں پرامن معاہدہ طے ہوا اور مسلم لیگ مسلمانوں کی نمائندہ جماعت بن گئی۔ پھر آپ نے میثاق لکھنؤ کے تحت مسلم کوٹے کی راہ ہموار کی۔  میثاق لکھنؤ کے بعد  مسلمانوں نے آپ کو “ہندو مسلم اتحاد کا سفیر” کا خطاب دیا۔  1918 میں آپ کی شادی ایک  پارسی خاتون رتن بائی سے  اسلام قبول کرنے کے بعد انجام پائی مسلمان ہونے کے بعد رتن بائی کا نام مریم جناح رکھ دیا جن سے 1919 میں  ایک بیٹی دینا پیدا ہوئیں  اور 1929 میں مریم جناح کا انتقال ہوگیا ان کے انتقال کے بعد بیٹی کی دیکھ بھال فاطمہ جناح نے کی بعد ازاں بیٹی نے انڈین پارسی نیول واڈیا  نامی شخص سے شادی کر لی اسلامی قوانین کی خلاف ورزی  کرنے پر  قائد اعظم نے  بیٹی سے بس رسمی سا تعلق رکھا۔ 1925 میں آپ کی سیاسی خدمات کے اعتراف میں آپکو “شاہ سوار” کے خطاب سے نوازنے کی کوشش کی گئی جس کو آپ نے  یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ میں “مسٹر جناح” کو استعمال کرنے کو ترجیح دیتا ہوں. 1928 میں نہرو رپورٹ کے بعد مسلمانوں کے موقف کی وضاحت کو محسوس کرتے ہوئے آپ نے چودہ نکات پیش کیے۔ 1930 میں الہ آباد کا سالانہ اجلاس منعقد ہوا جس کی صدارت علامہ اقبال نے کرتے ہوئے واضح کیا کہ مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قوم ہیں ان میں کچھ بھی مشترکہ نہیں اس کے بعد مسلم لیگ میں مسلمان لیڈروں کے آپس کے اختلاف سے  آپ مایوس ہو کر ہندوستان چھوڑ کر انگلستان چلے گئے آپ نے پانچ سال وہاں قیام کیا بعد میں کچھ مسلم رہنماؤں کی کوشش اور اصرار  کے بعد ہندوستان واپس آگئے جن میں علامہ اقبال سر فہرست تھے جنہوں نے خط لکھ کر مسلمانوں کی قیادت کرنے کے لیے آپ کو آمادہ کیا۔1940 میں قائد اعظم کی قیادت میں آل مسلم لیگ کا اجلاس ہوا جس میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی اور علیحدہ مملکت کے مطالبے کے بعد آپ نے مسلمانوں کی آزاد ریاست کے لیے باقاعدہ براہ راست جدوجہد شروع کر دی اس باقاعدہ تحریک کے بعد ہندو مسلمانوں کے خلاف ہو گئے وہ کبھی نہیں چاہتے تھے کہ مسلمان آزاد ہوں یا انکو حقوق ملیں اس جنگ کے بعد مسلم لیگ کانگریس کا اتحاد بھی ختم ہو گیا قائد اعظم کے مطابق ہندو نا قابل اصلاح قوم ہے آپ مسلمانوں کے بنیادی مسائل کا ادراک رکھتے تھے آپ بہت دور اندیش تھے۔  ایک مرتبہ آپ کالج کے طلباء سے خطاب کر رہے تھے کہ ایک ہندو لڑکے نے  آپ سے سوال کیا کہ آپ ہندوستان کا بٹوارہ کر کے ہمیں کیوں تقسیم کرنا چاہتے ہیں آپ میں اور ہم میں کیا فرق ہے  اس سوال پر آپ کچھ دیر خاموش رہے تو  وہاں موجود طلباء جملے کسنا شروع ہو گئے کچھ نے کہا کہ آپ کے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد آپ نے پانی کا گلاس منگوایا  جسے آپ نے تھوڑا سا پی کر میز پر رکھ دیا اور ایک ہندو لڑکے کو بلا کر وہ پانی پینے کو کہا اس لڑکے نے فوراً انکار کر دیا پھر آپ نے ایک مسلمان لڑکے کو بلایا اور پانی پینے کو کہا تو اس نے فوراً پانی پی لیا تب آپ سب طلباء سے مخاطب ہوئے اور فرمایا کہ یہ فرق ہے آپ میں اور ہم میں اور ہال میں ہر طرف سناٹا چھا گیا کیونکہ فرق واضح ہو چکا تھا ۔ان ہی سیاسی سرگرمیوں کے دوران ایک دفعہ گاندھی نے آپ سے پوچھا کہ آپ اپنے سیاسی فیصلے کیسے کرتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ اس سے قبل کہ میں آپ کو اپنے فیصلوں کا فار مولا بتاؤں میں آپ کو بتانا چاہوں گا کہ آپ اپنے فیصلے کیسے کرتے ہیں گاندھی نے کہا بتائیں فرمایا کہ آپ سیاسی میدان میں کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے عوام کا مزاج اور رائے معلوم کرتے ہیں جب آپ کو لوگوں کی رائے معلوم ہو جائے تو آپ لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ان کی رائے کے مطابق فیصلہ سناتے ہیں جبکہ میں اس کے برعکس فیصلہ کر تا ہوں میں صرف یہ دیکھتا ہوں کہ کیا صحیح ہے کیا غلط پھر جو صحیح ہو اسی کے مطابق فیصلہ کر تا ہوں تو گاندھی نے پوچھا  کہ کیا لوگ آپ کے فیصلے کو تسلیم کر لیتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ نہیں شروع شروع میں لوگ مخالفت کرتے تھے لیکن میں سچ پر ڈٹا رہا یہاں تک کہ مخالفت کم ہو گئی لوگ سچائی کو تسلیم کر لیتے ہیں تو میرے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں ایک صحیح فیصلہ ایسے ہزار فیصلوں سے بہتر ہے جو محض لوگوں کو خوش کرنے کے لیے لیا جائے ۔ اسی حوالے سے آپ کا قول مشہور ہے کہ”کوئی بھی فیصلہ لینے سے پہلے ہزار بار سوچیں جب فیصلہ کر لیں تو اس پر ڈٹ جائیں” ایک اور موقع پر فرمایا کہ “میں درست فیصلہ لینے پر یقین نہیں رکھتا بلکہ فیصلہ لے کر اسے ایک بہترین فیصلہ ثابت کرتا ہوں” ۔1940سے 1947 تک برطانیہ حکومت سے بہت سے وفود آئے آپ نے اپنی زبردست دہانت اور بے شمار صلاحیتوں سے مسلمانوں کے موقف اور حقوق کی بھرپور ترجمانی کی۔ ۔قائد کا قول ہے کہ “ناکامی ایک لفظ ہے میرے لیے نامعلوم” لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے مطابق ان کے لیے سب سے مشکل گاہک جناح تھے اور جناح نے سب سے بڑی پریشانی کھڑی کر رکھی ہے اس ملک میں آج تک کوئی بھی جناح کے دماغ میں نہیں جھانک سکا.  آپ نے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ “میرے ملک کے لیے میرا عزم غیر متزلزل ہے اور میں اپنے ملک کے لیے حصول آزادی کی جدوجہد میں کسی سے ہار نہیں مانوں گا۔” ایک اور موقع پر فرمایا کہ “یقین نظم و ضبط اور بے لوث لگن کے ساتھ دنیا کی کوئی ایسی چیز نہیں جو حاصل نہیں کی جا سکتی” ۔اور اسی لگن،ایمان،یقین،سچائی، عزم،ہمت، امید،سیاسی بصیرت، بے مثال قائدانہ صفات، خلوص، دیانتداری، انتھک محنت،  کاوشوں، قربانیوں،کمال فہم و فراست، مدبرانہ صلاحیتوں کے ساتھ  ساتھ اللّٰہ کی مدد و فضل اور فیض مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے برصغیر کے مسلمانوں کا وہ خواب جو وہ دو صدیوں سے دیکھ رہے تھے وہ 14 اگست 1947 کو پورا کر دیکھایا۔ پاکستان دنیا کے نقشے پر آزاد مسلم ریاست کے طور پر ابھرا آپ نے نہ صرف تاریخ کا دھارا بدل دیا بلکہ دنیا کا نقشہ ہی بدل ڈالا ۔اس مسلسل جدوجہد کام محنت اور بے آرامی کے سبب  آپ کی صحت کافی متاثر ہوئی آپ پھیپھڑوں کے مرض میں مبتلا تھے اور اس مرض کے بارے میں سوائے چند ایک قریبی لوگوں کے کوئی بھی نہیں جانتا تھا آپ نے اپنی بیماری کو بھی پوشیدہ رکھا کیونکہ آپ جانتے تھے کہ انگریزوں یا ہندوؤں کو آپ کی بیماری کا پتہ چل گیا تو وہ تقسیم ہند کو مؤخر کر دیں گے  لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو جب پتہ چلا کہ جناح اس مرض میں مبتلا تھے تو اس نے کہا کہ اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ جناح کو اتنی بڑی بیماری ہے تو ہم کبھی بھی پاکستان بننے نہ دیتے۔ پاکستان بننے کے بعد قائد اعظم نے فرمایا کہ “میں اپنا کام پورا کر چکا ہوں قوم کو جس چیز کی ضرورت تھی وہ اسے مل گئی ہے اب یہ قوم کا کام ہے کہ اسے تعمیر کرے” ایک اور موقع پر فرمایا کہ “تم جانتے ہو کہ پاکستان بن چکا ہے اور میری روح کو تسکین ملی ہے یہ مشکل کام تھا اور میں اکیلا اسے کبھی نہیں کر سکتا تھا میرا ایمان ہے کہ یہ رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا روحانی فیض ہے کہ پاکستان رمضان المبارک کی 27 شب کو وجود میں آیا قرآن مجید بھی 27 رمضان المبارک میں نازل ہوا اب یہ پاکستانیوں کا فرض ہے کہ وہ اسے خلافت راشدہ کا نمونہ بنائیں تاکہ خدا اپنا وعدہ پورا کریں اور مسلمانوں کو پوری زمین کی پاسداری حاصل ہو”۔ آپ نے پاکستانی قوم کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ “میں آپ کو مصروف عمل ہونے کی تاکید کرتا ہوں کام کام اور صرف کام” جس کا عملی مظاہرہ کرکے دکھایا اور تعلیم کی اہمیت بتاتے ہوئے فرمایا کہ “علم تلوار سے بھی زیادہ طاقتور ہے”۔  آزادی کے بعد آپ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنے اور بحیثیت گورنر جنرل صرف ایک روپیہ بطور تنخواہ لیتے تھے ۔سخت بیماری کی حالت میں بھی آپ نے آرام نہیں کیا اور نہ ہی اپنی صحت پر توجہ دی آپ اسی طرح کام کرتے رہے آپ وقت کے بھی بہت پابند تھے ایک مرتبہ گورنر ہاؤس کے گارڈ کی گھڑی خراب ہو گئی اور وہ پریشانی کے عالم میں کھڑا تھا کہ تھوڑی دیر بعد اس کو آپ کے قدموں کی آہٹ سنائی دی تو اس نے فوراً سات بجے پر اپنی گھڑی کا ٹائم سیٹ کر لیا وہ جانتا تھا کہ آپ وقت کے کتنے پابند ہیں ۔ آپ نے گورنر بننے کے بعد بھی کفایت شعاری دیانتداری اور انصاف  کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں ایک دفعہ سرکاری استعمال کے لیے سینتیس روپے کا فرنیچر منگوایا گیا آپ نے لسٹ دیکھی تو سات روپے کی کرسیاں اضافی تھیں آپ نے پوچھا کہ یہ کس لئے ہیں تو بتایا گیا کہ یہ آپکی بہن فاطمہ کے لیے ہیں تو آپ نے لسٹ سے وہ خارج کر کے فرمایا کہ اس کے پیسے فاطمہ سے لئے جائیں اس کی ادائیگی قومی خزانے سے نہیں کی جائے گی۔اسی طرح پاکستان کی پہلی کابینہ کا اجلاس تھا آپ بھی اس میں شریک تھے اے ڈی سی نے آپ سے پوچھا سر اجلاس میں چائے پیش کی جائے یا کافی؟ آپ نے چونک کر سر اٹھایا اور فرمایا یہ لوگ گھروں سے چائے کافی پی کر نہیں آئے؟اے ڈی سی گھبرا گیا، آپ نے فرمایا جس وزیر نے چائے کافی پینی ہے وہ گھر سے پی کر آئے یا گھر واپس جا کر پی لے قوم کا پیسہ قوم کے لیے ہے وزیروں کے لیے نہیں ۔ آپ نے ایسی اور بھی بہت عملی مثالیں پیش کیں ایک مرتبہ آپ کہیں جا رہے تھے تو ریلوے ٹریک بند ہو گیا آپ کا  ڈرائیور اتر کر کہنے لگا گورنر جنرل آئے ہیں ٹریک کھولو تو آپ نے فرمایا کہ نہیں اسے بند رہنے دو میں ایسی کوئی مثال قائم نہیں کرنا چاہتا جو پروٹوکول پر مبنی ہو۔آپ نے اپنے ایک خطاب میں فرمایا “اگر ہم اس عظیم مملکت پاکستان کو خوشحال بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی پوری توجہ لوگوں بالخصوص غریب طبقے کی فلاح و بہبود پر مرکوز کرنی پڑے گی”۔ پھر ایک موقع پر فرمایا کہ “کفایت شعاری ایک قومی فریضہ ہے”۔ پاکستان کیسا ملک ہو اسکی تعمیر کن بنیادوں پر ہو بتانے کے لیے آپ نے اپنے کئی خطبات میں واضح کیا جیسے کہ آپ نے فرمایا کہ “مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرزِ حکومت کیا ہوگا پاکستان کے طرزِ حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں مسلمانوں کا طرزِ حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا الحمدللہ قرآن مجید ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا”۔ “اپنے وطن سے محبت کرنے والی اور وطن کی خاطر قربانیاں دینے کا جذبہ رکھنے والی قومیں تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ عزت و وقار کے ساتھ جگہ پاتی ہیں ہم نے پاکستان حاصل کر لیا لیکن یہ ہمارے مقصد کی ابتداء ہے ابھی ہم پر بڑی زمہ داریاں ہیں حصول پاکستان کے مقابلے میں اس ملک کی تعمیر پر کہیں زیادہ کوشش صرف کرنا ہے اور اس کے لیے قربانیاں بھی دینی ہیں”۔

ـ”ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایسی تجربا گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں مسلمانوں ہمارا پروگرام قرآن مجید میں موجود ہے ہم مسلمانوں کو لازم ہے کہ قرآن پاک غور سے پڑھیں قرآنی پیغام کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ مسلمانوں کے سامنے کوئی دوسرا پروگرام پیش نہیں کر سکتی”۔

ـ” قدرت نے آپ کو ہر نعمت سے نوازا ہے آپ کے پاس لا محدود وسائل موجود ہیں آپ کی ریاست کی بنیادیں مضبوطی سے رکھ دی گئی ہیں اب یہ آپ کا کام ہے کہ نہ صرف اس کی تعمیر کریں بلکہ جلد از جلد اور عمدہ تعمیر کریں سو آگے بڑھئیے اور بڑھتے ہی جا ئیے”۔

  “دنیا میں کوئی ایسی طاقت نہیں جو پاکستان کا وجود ختم کر سکے”

آپ نے اپنی قوم کو تین سنہری الفاظ سمجھائے “تنظیم”  “اتحاد” ایمان “۔

اس مسلسل محنت نے آپ کو جسمانی طور پر بہت متاثر کیا اور کافی حد تک کمزور کر دیا تھا آپ کی صحت دن بدن بگڑتی گئی آپ کو ڈاکٹر نے آرام کا مشورہ دیا  تو آپ کوئٹہ چلے گئے ۔وہاں بھی آپ مسلسل کام کرتے رھے وہاں سے آپ زیارت تشریف لے گئے لیکن اتنی بلندی آپ کی صحت کے لیے اچھی نہیں تھی آپ کی طبیعت اور بگڑ گئی آپ کے معائنہ کے لیے ڈاکٹر کو بلایا گیا اس نے کچھ ٹیسٹ کر کے بتایا کہ آپ ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہیں تو آپ نے فرمایا کہ میں یہ پہلے سے جانتا ہوں. تشخیص کے بعد ڈاکٹر نے جدید دواؤں سے آپ کا علاج شروع کر دیا ۔اس وقت تک آپکا وزن گر کر 36 کلو ہو گیا۔ 9 ستمبر  کو آپ کے مزید کچھ ٹیسٹ کرنے پر آپ کے خون کے نمونے میں نمونیا کے جراثیم پائے گئے ڈاکٹر نے علاج کے غرض سے کراچی جانے کا مشورہ دیا جس پر آپ راضی ہو گئے اور أپ نے فاطمہ جناح سے بھی خواہش ظاہر کی کہ “میں کراچی میں پیدا ہوا ہوں اور وہیں دفن ہونا چاہتا ہوں” ۔11 ستمبر کو آپ کو ہوائی جہاز سے کوئٹہ سے کراچی کے لئےروانہ کیا گیا کراچی پہنچ کر آپ کو ایئرپورٹ سے ایک ایمبولینس میں منتقل کیا گیا ماڑی پور سے ایمبولینس نے چند میل کا سفر طے کیا تھا کہ ایمبولینس خراب ہو گئی۔ دوسری ایمبولینس کا بندوست کیا جانے لگا اس دوران سخت گرمی میں آپ فاطمہ جناح کے ساتھ  ایمبولینس میں انتظار کرنے لگے ساتھ ہی دوسری گاڑیوں کی آمد و رفت جاری تھی مگر کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس خراب ایمبولینس میں بانئ پاکستان موجود ہیں شدید گرمی نے آپ کی صحت پر کافی برا اثر کیا ایک گھنٹے تاخیر کے بعد دوسری ایمبولینس آئی تو آپ کو  اس میں گورنر ہاؤس لایا گیا آپ کے معالج ڈاکٹر کرنل الہیٰ بخش نے  آپ کا معائنہ کیا اور کچھ دیر بعد آنے کا کہا اور چلے گئے آپ کے ساتھ کمرے میں فاطمہ جناح  موجود تھیں آپ دو گھنٹے تک گہری نیند سوتے رہے کچھ دیر کے لیے آنکھیں کھولیں فاطمہ جناح کو مخاطب کیا ان سے “الوداع “کہا  اور کلمہ شہادت پڑھتے ہی آنکھیں بند کرلیں اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملے 11 ستمبر 1948 کو  پاکستان بننے کے  ایک سال بعد 71 برس کی عمر میں آپ اس جہان سے رخصت ہو گئے گویا کہ آپ اسی کام کے لیے چنے گئے تھے ۔ آپ نے فرمایا تھا کہ “میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد و سر بلند دیکھوں میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی، تنظیم اور مدافعت میں اپنا فرض ادا کر دیا”۔ 12 ستمبر 1948 کو علامہ شبیر عثمانی نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور پرانی نمائش میں سید ہاشمی کی تجویز پر تدفین کردی گئی یہ ایک قومی سانحہ تھا دونوں ملکوں پاک و ہند میں سوگ کا اعلان کیا گیا آج کراچی میں وہیں آپ کا مزار واقع ہے۔  مزار کے لیے موجود جگہ کا انتخاب اس وقت کے کمشنر ہاشم رضا نے کیا، مقبرے کا نقشہ یحییٰ مرچنٹ نے بنایا جن کا تعلق ترکی سے تھا، آپ کے مزار کا سنگِ بنیاد 8 فروری 1960 کو صدر ایوب خان نے رکھا کام کا باقاعدہ آغاز 31 جولائی 1960 کو ہوا، مزار کے لیے چین کے وزیر اعظم چو این لائی نے خوب صورت فانوس 30 جنوری 1970 کو تحفہ پیش کیا۔ آپ کے انتقال پر ایک انگریز اخبار نویس نے لکھا تھا موت وہ واحد دشمن ہے جس کے آگے جناح نے اپنا سر جھکایا۔ مسز وجے لکشمی پنڈت نے کہا کہ مسلم لیگ کے پاس ایک سو گاندھی اور دو سو ابو الکلام ہوتے لیکن کانگریس کے پاس صرف ایک محمد علی جناح ہوتے تو ہندوستان کبھی تقسیم نہ ہوتا الغرض کہ پوری دنیا میں دوست دشمن مخالف ہر ایک نے آپکی بے مثل قائدانہ صفات فہم و فراست سیاسی بصیرت ذہانت داری لازوال غیر معمولی اور منفرد شخصیت خداد صلاحیتوں اور قابلیت عزم و ہمت خود اعتمادی بے داغ اور اجلے کردار  مدبرانہ صلاحیتوں کا اعتراف کیا۔ پاکستانی قوم ایک عظیم الشان لیڈر سے محروم ہو گئی اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ بہترین قانون دان بہترین سیاست دان بہترین پارلیمنٹیرین  بہترین وکیل صاحب کردار تھے۔

آپ کے فرمان “ایک شخص بن کر نہ جیو بلکہ ایک شخصیت بن کر جیو کیوں کہ ایک شخص تو مر جاتا ہے لیکن شخصیت ہمیشہ زندہ رہتی ہے” کو آپ نے واقعی میں سچ ثابت کر دکھایا آپ کا نام رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا ۔

یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران

اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان