اس کے ساتھ والی سیٹ پر میں گود میں اپنی بیٹی کو لئے بیٹھی تھی۔ وہ ہر تھوڑی دیر بعد مسکرا کر پیار بھری نظروں سے میری بیٹی کی طرف دیکھتی اور کبھی میرے چہرے سے میرے مزاج کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتی۔ سفر لمبا تھا اور دو خواتین کب تک خاموش رہ سکتی ہیں۔

میں نے پہل کرتے ہوئے نام پوچھا۔ صائمہ

کس شہر میں رہتی ہیں؟  خانیوال

اب آپ اپنے گھر جا رہی ہیں؟ جی

 ابھی تک وہ اختصار سے کام لے رہی تھی۔

آپ کو عید کی کتنی چھٹیاں ہوں گی؟ کل عید ہے نا۔

میرے اس سوال کے جواب میں جو وہ بولی تو بولتی  چلی گئی۔ 

جی کل کی چھٹی ہے۔ پرسوں ڈیوٹی پر دوبارہ جانا ہے۔ یونیفارم میلا ہو چکا ہے۔ دو تین دن سے اسے دھونے کا وقت نہیں ملا۔ میرے پاس صرف ایک یونیفارم ہے۔ یونیفارم کی سلائی بہت مہنگی ہے۔ خود سلوایا ہے۔ مسلسل سفر میں ہوں۔ عید کے دن ہیں۔ کچھ بس ہوسٹس چھٹی پر ہیں۔ ان کی ڈیوٹی بھی مجھے دینی ہے۔ سونے کا بھی وقت نہیں ملا۔ دو دن سے ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے روٹ پر مسلسل سفر کر رہی ہوں۔تھک چکی ہوں۔

اوہو۔ اس طرح تو آپ کی صحت خراب ہو جائے گی۔ میں نے پریشانی کا اظہار کیا۔

کیا کریں، مجبوری ہے۔ غربت ہے۔ باپ نہیں ہے۔ یہاں جو بھی آتی ہیں وہ مجبور ہیں۔ چھوٹی عمر کی لڑکیاں بھی ہیں جن کے باپ بھائی نہیں ہیں۔ بڑی عمر کی شادی شدہ لڑکیاں بھی ہیں۔ شادی شدہ بچوں والی عورتیں بھی ہیں۔ اور وہ بھی ہیں جو گھر سے بھاگ گئیں لیکن بعد میں جس کے ساتھ بھاگیں اس نے بھی چھوڑ دیا تو بس ایسے گزر رہی ہے ہماری زندگی ۔

سب کی اپنی اپنی مجبوریاں ہیں۔ کچھ کو شوہر خرچہ نہیں دیتے۔ کسی کا شوہر کام نہیں کرتا۔ کسی کے بچے پرواہ نہیں کرتے۔ اور کچھ خود ہی اپنے بچوں پر بوجھ نہیں بننا چاہتیں۔ کوئی اور ہنر پاس نہیں تو ادھر آ گئیں۔

بس ڈرائیور کنڈیکٹر کے ساتھ کسی لڑکی کے بارے میں  باتیں کر رہا تھا۔ جس کی مجھے کوئی خاص سمجھ نہیں آ رہی تھی یا شاید میں نے سمجھنا ہی نہیں چاہا۔   اس دوران وہ کوئی نہ کوئی بات کر کے اس تیئس چوبیس سالہ لڑکی کو مخاطب کرتا جو ماسک پہنے میلے آستین والے یونیفارم میں ملبوس میرے ساتھ بیٹھی تھی۔

یہ دیکھیں، یہ بس ڈرائیور ہر بس ہوسٹس کے بارے میں الٹی سیدھی باتیں کرتا ہے۔ یہ چاہتا ہے ہر لڑکی کِھلکِھلا کر میرے ساتھ ہنسے اور باتیں کرے۔ بیہودہ  مذاق کرے۔ جو ایسا نہیں کرتی اس کے خلاف دوسرے آدمیوں کے پاس غلط باتیں کرتا ہے۔

کیا یہ سب ایسا کرتے ہیں؟ میں نے اسے پوچھا۔

نہیں ، نہیں۔ کچھ ڈرائیور انکل بہت اچھے ہوتے ہیں۔ بالکل یُوں بات کرتے ہیں جیسے گھر کی بیٹی ہو۔ عزت اور احترام سے پیش آتے ہیں۔

لیکن یہ والا ڈرائیور بہت بدتمیز ہے۔

گھنٹی بجنے پر اس نے منرل واٹر کی بوتل اٹھائی اور چل پڑی۔ ان باتوں کے درمیان وہ کتنی بار ہی کسی نہ کسی کام سے اٹھ چکی تھی۔

دوبارہ سیٹ پر آ کر بیٹھی اور پچھلی بات سے بات جوڑتے ہوئے کہنے لگی۔ “میں کسی ڈرائیور یا کنڈیکٹر سے زیادہ بات نہیں کرتی۔ چپ رہتی ہوں۔ ہر وقت ماسک پہنے رکھتی ہوں۔ ماسک اس لئے لگائے رکھتی ہوں کہ کوئی رشتہ دار مجھے پہچان نہ لے۔ کیا سوچے گا کہ فلاں کی لڑکی یہ کام کرتی ہے”۔

کچھ شکایات اسے ان مسافروں سے بھی تھیں جو برے حالات سے تنگ، ڈری سہمی ان خواتین کو عورت ہونے کی سزا دیتے ہیں۔ دانستہ طور پر اپنے بازو اور ٹانگیں پھیلا لینا کہ کسی طرح عورت سے مس ہو جائے۔ بار بار پانی پینے کے بہانے بلا کر عجیب نظروں سے گھورنا اور خباثت سے مسکرانا۔ تصاویر کھینچ کر ہراساں کرنا، وغیرہ۔

کوئی ٹرمینل آ گیا تھا۔ اس کو اناؤنسمنٹ کے لئے اٹھنا تھا۔ بس ڈرائیور نے “چٹکلہ” چھوڑا ۔

“چل آ جا، شور شرابہ کر”

اس نے چپ چاپ  اپنا دوپٹہ اور شرٹ درست کی۔  مائیک اٹھایا اور اعلان کرنے لگی۔ مسافروں کے لئے کسی مقام پر پہنچ جانے کی خبر تھی لیکن مجھے اس اعلان میں اس کے دکھ درد اور گلے شکوؤں کی گونج شدت سے محسوس ہو رہی تھی۔

 :ورکر لیڈیز کی گزارش میرے قلم سے

 بیچ چوراہے کشکول تھامے

چند سیاہ سکوں کی منتظر

وہ نہیں ہوں میں

 بڑے شہر کے سڑک کنارے

طوائف کے ذومعنی اشارے

وہ نہیں ہوں میں

اماں کی دوا ابا کی معذوری

بس اتنی سی ہے مجبوری

 نازک سہی کمزور سہی مگر

جو سمجھے ہو تم مجھے

وہ نہیں ہوں میں

خودداری بھی ہے اک نعمت

تمہاری عنایت نہیں چاہئیے

مدد کی صورت ضمیر سے

کوئی شکایت نہیں چاہئیے

مجھے بس میں دیکھو تم

شہر کے کسی مارٹ میں دیکھو

کسی پیٹرول پمپ پر دیکھو

 چلتے پھرتے پارک میں دیکھو

گزارش میری یہ ہی ہے فقط

نیک تمنا نیک گمان رکھنا تم

 بے مہار مردانگی سے پہلے

لازم صفت انسان رکھنا تم