کبھی راہ چلتےراستے سے پتھر ہٹادینا، کسی بزرگ کا ہاتھ پکڑ کر سڑک پار کرا دینا، کسی کو مسکرا کر سلام کرنا یا اسکے لیے کچھ تعریفی کلمات کہنا ، یقین مانئے یہ سب ایسے اعمال ہیں جن کے کرنے کیلئے آپ کو کوئی خاص محنت نہیں کرنی پڑتی لیکن آپ کے نیک اعمال میں اضافہ ضرور ہو جاتا ہے
صدقہ کرنے کیلئے ضروری نہیں کہ آپکے پاس وافر روبیہ پپیسہ یا بے تحاشا وسائل ہوں، سلام میی پہل کرنا، کسی کا درد بانٹنا، کسی کو ابنا وقت دینا ،اسکی باتیں توجہ سے سننا، وقت بہ وقت صرف خیریت دریافت کرنے کیلئےکسی کو کال کرلینا، کسی کے مسائل سن کر اسے تسلی دینا اور ممکنہ حل بتانا، کسی کو خصوصاً بزرگوں کو ان کی اہمیت کا احساس دلانا، یہ سب باتیں بھی آپکی جانب سے صدقے میں ہی شمار ہوتی ہیں۔
کسی کا قرض اتارنا، کمزوروں ، ناداروں اور خصوصاً اپنے ملازموں سے حسن سلوک سے پیش انا، بغیر ضرورت کے کسی غریب چھابڑی والے سے خریداری کر لینا ، دو لوگوں میں انصاف کرانا ، ناراض رشتہ داروں میں صلح صفائی کروانا، کسی بھوکے کو کھانا کھلانا، پیاسے کو پانی پلانا، بھٹکے ہوئے کو راستہ دکھانا ،کسی ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنا ،کسی کا سہارا بننا، کسی کے دکھ سکھ میں شامل ہونا ،اپنے پاس موجود علم کو دوسروں تک پہنچانا یہ سب باتیں بھی صدقہ ہیں ۔یعنی ہر وہ نیکی جو اللہ کو راضی کرے اور اس کی مخلوق کو آسانیاں پہنچانے کا سبب بنے صدقہ میں شمار ہوتی ہے۔
صدقہ وہ نیکی ہے جس کا حکم اللہ تعالی نے بھی کیا اور جس کی ترغیب ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی دلائی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ صدقہ کرتے ہو دکھاوا اور ریاکاری سے بچا جائے کہ یہ دونوں عمل نیکی کو ضائع کر دیتے ہیں ۔
حکم ہے کہ مصیبت کے آنے سے پہلے صدقہ دے دو کہ یہ صدقہ دیوار کی طرح آڑے آجاتا ہے اور مصیبت اس کو پھاند کر نہیں آ سکتی ۔صحت، تندرستی اور خوشحالی میں کیا جانے والا صدقہ سب سے افضل ہے۔ بلکہ روایت ہے کہ بہتر صدقہ وہ ہے جو ناراض غریب رشتہ دار کو دیا جائے، ناراض اس لئے کہ اس میں تمہارا نفس شامل نہیں ہوگا ۔
ہمارے نبی پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق تو ایک کھجور کا صدقہ بھی اللہ کے ہاں بہت مقبول ہے۔ ایک روایت کے مطابق ایک مجلس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کیا کہ رات کو کون صدقہ کرکے سو یا تھا کہ اس کے صدقے کی بدولت ساری رات آسمان سے رحمتوں کا نزول ہوتا رہا تو بار بار پوچھنے پر ایک صحابی جھجھکتے ہوئے اٹھے اور کہا یا رسول اللہ رات میرا دل کیا کہ میں کچھ اللہ کی راہ میں صدقہ کروں، بہت تلاش کے بعد بھی مجھے گھر میں کچھ بھی ایسا نہیں ملا جسے میں صدقہ کر سکوں تو میں نے اپنے سے وابستہ ہر شخص کو معاف کر دیا اور کہا کہ اللہ میری طرف سے یہ صدقے میں قبول فرمالیں تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں یہی وہ صدقہ تھا جو اللہ کے ہاں بہت مقبول ہوا ۔
حکم ربی ہے کہ جب رزق تنگ ہونے لگے تو صدقہ دیکر اپنے رب سے کاروبار کر لو بےشک اس میں تمہیں ہی فائدہ ہوگا اور تمہارے رزق میں اضافہ ہوگا یہ رب کا وعدہ ہے اور بے شک میرا رب اپنے وعدے کو پورا کرنے والا ہے۔
صدقہ کرنے والا شخص پل صراط سے گزر کر بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوگا، یہ ہر مرض کی دعا ہے ، آفات و مصیبت سے بچاتا ہے، عزت و ناموس کی حفاظت کرتا ہے، بیماریوں کا شافی علاج ہے، مال میں زیادتی اور برکت کا سبب ہے، صدقہ کرنے والے کے لیے فرشتے دعا کرتے ہیں، صدقہ دل کی سختی کو ختم کرتا ہے، اللہ کے غضب و غصہ اور ناراضگی کے خاتمہ کا سبب بنتا ہے، صدقہ موت کی سختی کو دور کردیتا ہے ، عذاب قبر جہنم سے محفوظ رکھتا ہے۔ غرض صدقہ کرنے والا کبھی گھاٹے میں نہیں رہتا ۔