کچھ ایسی معتدل مزاج شخصیات ہوتی ہیں جن کا ایک رعب یا دبدبہ ہوتا ہے۔ عام طور پر سنجیدہ ہوتے ہیں۔ان کا لہجہ متانت سے بھرپور ہوتا ہے۔ ان کی سوچ کی پختگی ان کے اقوال، اعمال و افعال سے جھلکتی ہے۔ان کی بات میں وزن ہوتا ہے۔ لوگ ان کے صائب مشوروں پر چلتے ہیں۔ اپنی محافل میں ان کو دعوت دے کر خوش ہوتے ہیں۔ ان سے محبت کرتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر ان کے دلوں میں ان شخصیات کے لئے عزت اور احترام ہوتا ہے۔ لیکن یہ خود اس بات کے متمنی نہیں ہوتے کہ ہر جگہ ان کی آؤ بھگت کی جائے۔ واہ واہ ہو یا لوگوں کے دلوں میں ان کا رعب ہو۔ اپنی اسی سادہ طبیعت کے سبب لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا لیتے ہیں اور چھائے رہتے ہیں۔ 

اس کے برعکس کچھ لوگوں کی خواہش یا شوق ہوتا ہے کہ ہر شخص پر ان کا رعب ہو۔ ہر ایک کے حواس پر چھائے رہیں۔ پھر چاہے وہ قریبی رشتہ دار ہو یا دور پار کا ہو۔ گلی میں رہنے والے بچے ہوں یا محلے میں آباد بڑے ہوں۔ کسی کا ان سے تعلق واسطہ، لین دین ہو یا نہ ہو لیکن خوامخواہ ہی لوگ ان سے ڈریں۔ ان کے پیچھے پیچھے چلیں۔ ان سے مشورے لیں۔ ان کو دانا سمجھیں۔ اور ان ہی کا حکم ہر طرف چلے۔ ان کے خوف سے بچے بڑے سب سہمے رہیں۔ کہیں جائیں گے تو پرمزاح محفل میں بھی خواہ مخواہ  اپنے اوپر سنجیدگی کا خول چڑھا کر خود کو بڑا آدمی تصور کروانے کی کوشش کریں گے۔ بلاوجہ کی روک ٹوک کریں گے۔ دوسروں کے معاملات میں گھسیں گے۔ تعریف سننا تو ہر کوئی پسند کرتا ہے لیکن یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو خوشامد سننا پسند کرتے ہیں۔ یعنی اپنی وہ تعریفیں سن کر خوش ہوتے ہیں جو خصوصیات ان میں سرے سے نہیں ہیں۔ اپنے علاوہ کسی کو قابل توجہ نہیں سمجھتے۔ دوسروں کی تحقیر میں اپنی تعظیم سمجھتے ہیں۔ ہر وقت دوسروں کو نیچا دکھانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ نمائش اور دکھاوے کے عادی ہوتے ہیں۔ عاجزی اور انکساری کی بجائے اکڑ دکھاتے ہیں۔ ایک چھوٹی سی بات یا ایک انکار سے ان کی عزت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ بہت جلدی بے عزتی اور انا کا مسئلہ بنا کر جھگڑا کھڑا کر لیتے ہیں۔ وہ کیا ہے کہ “برتن وہ ہی زیادہ شور کرتا ہے جو خالی ہو”۔

ان کی ان عادتوں کی وجہ سے چند لوگ ان سے ڈرنے بھی لگتے ہیں۔ لیکن کسی کے دل میں ان کا کوئی احترام یا عزت نہیں ہوتی۔

عزت  ایسی چیز نہیں ہے جو ڈرا دھمکا کر حاصل کی جا سکے۔

اگر آپ کی آمد پر کوئی کھڑا ہو کر استقبال کر رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ دل میں عزت ہو گی۔ وہ تو آپ کے شر سے ڈر کر کھڑا ہے۔

 وہ لوگ جو معاشرے میں اپنا قد کاٹھ اونچا رکھنا چاہتے ہیں یاد رکھیں!  عزت کمائی جاتی ہے۔ طلب نہیں کی جاتی۔

یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو ڈرا دھمکا کر حاصل کی جا سکے۔

ایک جملہ کہیں پڑھا تھا۔

“Respect is for those who deserve it. Not for those who demand it.”

اخلاق بلند کر لیں۔ معاشرے میں مقام و مرتبہ بلند ہو جائے گا۔

ہر وقت اور ہر جگہ سنجیدگی اختیار کرنے سے لوگ آپ سے دور بھاگنے لگتے ہیں۔

بے موقع اور بے محل نصیحتیں اثر نہیں کرتیں۔

بن مانگے مشورے کی اہمیت نہیں ہوتی۔

بلاوجہ کی روک ٹوک بغاوت پیدا کرتی ہے۔

دوسروں کے معاملات میں تانک جھانک آپ کے وقار میں کمی کا باعث بنتی ہے۔

 جائز طریقوں سے کی گئی کمائی آپ کی عزت بڑھاتی ہے۔

احسان کر کے نہ جتلائیں۔

کسی کی مدد دکھاوے کے لئے نہ کریں۔

اپنی سوچ اور افکار کو زبردستی دوسروں پر لاگو کرنے کی کوشش نہ کریں۔

 اختیارات کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں۔ ناحق نہ کھائیں۔

چھوٹوں اور بڑوں کو یکساں عزت اور احترام دیں۔ کیونکہ عزت نفس سب میں ہے۔ کوئی مدد مانگ لے تو مدد کریں۔ اگر مدد نہیں کر سکتےتو حیلے بہانوں سے لٹکانے کی بجائے فوراً ہی معذرت کر لیں۔ کوئی غلطی کر بیٹھے ہیں تو ڈٹ جانے کی بجائے معذرت کر لیں۔ قول کے پکے رہیں۔ بات کرنا اور پھر مُکرنا، اس عادت سے آپ قابل بھروسہ نہیں رہتے۔ حلقہ احباب میں آپ کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔

مت سمجھیں کہ کسی کو رسوا کر کے آپ عزت حاصل کر لیں گے یا بڑے نظر آنے لگیں گے۔ مذاق نہ اڑائیں۔ کسی کی خامیاں نہ اچھالیں۔

حقارت سے نہ دیکھیں اور اپنی کسی نعمت یا صلاحیت پر غرور نہ کریں۔

مخلص رہیں۔ دوسروں کی ٹانگیں کھینچے بغیر ترقی کے لئے کوشاں رہیں۔

اپنے اندر دوسروں کی تعریف کرنے کا حوصلہ اور جائز تنقید سہنے کی ہمت پیدا کریں۔ جو انسان اپنے ہر قول و فعل کو صحیح سمجھتا ہے وہ کبھی اپنی درستی نہیں کر سکتا۔ جو انسان خود کو عقل کُل سمجھتا ہے اس سے بڑا بیوقوف کوئی نہیں ہے۔

اخلاق سنوارنے کے یہ وہ چند طریقے ہیں جن پر عمل کر کے  آپ دوسروں کے دل و دماغ پر راج کر سکتے ہیں۔ خود کو بدلیں دنیا بدل جائے گی۔