سال 2022 میں پاکستان میں ہونے والی بارشوں کے باعث  سیلاب آنے سے جو تباہ کاریاں ہوئیں اس سے ہم سب تو بخوبی واقف ہوں گے جس نے پاکستان کو کئی سال پیچھے دھکیل دیا اور اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے مزید کچھ سال لگ سکتے ہیں۔لیکن کیا ہم نے اس کی وجوہات پر غور کیا یا اس سب سے آئندہ نمٹنے کے لیے کوئی لائحہ عمل تیار کیا ہے یا کوئی اقدامات اٹھائے ہیں؟  اگر سب سے پہلے ہم اس کے اسباب پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ جب سے یہ زمین معرضِ وجود میں آئی تو اس زمین کا نقشہ، ماحول، آبادی، رہن سہن آج سے مختلف تھا وقت گزرنے کے ساتھ انسان قدرت پر حاوی ہونے کی کوشش کرنے لگا اور اپنی زندگی بہتر سے بہتر بنانے کیلئے ہم نے ترقی کے نام پر خطرناک حد تک کافی مسائل کو جنم دے دیا ہے۔ قدرت نے ماحول اور آب و ہوا میں ایک توازن برقرار رکھا ہوا ہے زمین کا یہ توازن جس پر انسانی زندگی کا دارومدار ہے یہ بگڑتا ہے تو تباہی کا باعث بنتا ہے۔ ماحول میں بڑھتا درجہ حرارت عالمی سطح پر تشویش کا باعث ہے اور کافی عرصہ سے یہ موضوع عالمی سطح پر زیر بحث ہے۔ ماحول انسانی زندگی پر گہرا اثر رکھتا ہے اسی ماحول میں انسان پروان چڑھ کر مختلف مراحل طے کرتا ہے۔ بیسویں صدی میں درجہ حرارت میں %0.6 سینٹی گریڈ تک اصافہ ہوا ہے اور یہ بتدریج بڑھتا جا رہا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ زمین میں موجود گیسیز ہیں جو قدرتی طور پر نہیں بلکہ مختلف عوامل کے نتیجے میں ہماری آب و ہوا کا حصہ بنتی ہیں، جب ہم کوئلہ، تیل، حیاتیاتی ایندھن، قدرتی گیس کو جلاتے ہیں تو کاربن ڈائی آکسائڈ میتھین کلورو فلورو کاربن ہوا میں شامل ہو جاتی ہے اور ان گیسیز کے سبب گرین ہاؤس گیس ماحول میں پھیل جاتی ہے جس کی وجہ سے سورج سے نکلنے والی شعاعیں زمین اپنے اندر جذب کر لیتی ہے یہ گیس پودوں سمندروں میں جذب نہیں ہوتی بلکہ آلودگی کا باعث بنتی ہے ساتھ ہی درجہِ حرارت میں اضافے کا باعث بنتی ہے، درجۂ حرارت میں اضافے کے سبب زمین زیادہ گرم ہو جا تی ہے جب زمین زیادہ گرم ہوتی ہے تو لاوا اگلنے لگتی ہے جو مزید حرارت کا باعث بنتا ہے اس کے ساتھ ماحول میں آکسیجن کی کمی کاربن ڈائی آکسائڈ میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ سمندروں کا درجہ حرارت بڑھنا، برف کا پگھلنا، سمندری سطح کا بلند ہونا، پانی میں تیزابیت کا باعث بنتی ہے۔ ان سب عوامل کے نتیجے میں ماحولیاتی تبدیلیاں رونما ہوئی جو وقت گزرنے کے ساتھ موسموں پر اثر انداز  ہونے لگیں اور موسمی تبدیلی دیکھنے میں آئی موسمی تبدیلی کے باعث گرمی میں اضافہ ہوا ہے، بے موسم بارش یا طوفانی بارشوں کا سلسلہ عام ہو گیا ہے برف باری بڑھ گئی ہے سیلاب اور طوفان کی شدت میں اضافہ ہوا ہے خشک سالی جیسے مسائل میں اضافہ ہونے لگا ہے۔ ماحولیاتی اور موسمی تبدیلیاں انسان کی صحت، زمین کی صحت، جانوروں کی صحت غرض ہر جاندار کو متاثر کر رہی ہے 8000 سال سے کاربن ڈائی آکسائڈ %0.3 پر تھا جو کہ اب %0.4 پر آ جکا ہے جو بظاہر کم فرق نظر آتا ہے مگر اس کے بہت بڑے اثرات مرتب ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ساحل سکڑ رہے ہیں صحرا پھیل رہے ہیں, اسی طرح پاکستان کا درجہ حرارت پچھلے دس سالوں میں کافی حد تک گرم ہو گیا ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں کم وبیش 7000 گلیشیر پائے جاتے ہیں اور کوہ ہمالیہ کے گلیشئیر تیزی سے پگھل رہے ہیں اسی ماحولیاتی آلودگی کے باعث پاکستان میں بھی تیزی سے موسمی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان ان ٹاپ ممالک میں شامل ہے جن کو موسمی تبدیلی سے متاثر ہو نے کا زیادہ امکان ہےاور  پاکستان میں نہ تو ایسی کوئی ٹیکنالوجی ہے نا ہی معاشی طور پر اتنا مستحکم ہے کہ بر وقت بہتر اقدامات اٹھائے جا سکیں یا ایسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار رہے۔ پاکستان جہاں قدرتی وسائل اور ذخائر سے مالا مال ملک ہے وہاں پاکستان زرعی ملک بھی ہے۔ ہماری انڈسٹری سے نکلنے والا دھواں بڑے پیمانے میں آلودگی کا سبب ہے اسکے ساتھ ساتھ ملک کی بڑھتی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے لوگوں کی رہائش کے لیے زمین خالی کرنے کی ضرورت بڑھتی جارہی ہے ساتھ ہی خوراک کی بڑھتی ڈیمانڈ کے سبب زیادہ کھیتی باڑی کے لیے زمین کی ضرورت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے جس کے لیے جنگلات کی کٹائی درختوں کو کاٹنے کی ضرورت پیش آتی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ لوگوں کی آمد و رفت کے لیے گاڑیوں کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں، ایندھن ماحول کو تباہ کر رہا ہے خوراک کے لئے جانوروں کے گوشت کے استعمال کی وجہ سے میتھین گیس بڑھ رہی ہے اور موسمی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ۔ پاکستان میں موسمی تبدیلیوں سے گرمی کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے ہیٹ ویو سے آبادی کی بڑی تعداد متاثر ہو رہی ہے، خشک سالی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک زرعی ملک ہونے کی وجہ سے ملکی پیداوار میں اضافے کی ضرورت ہے مگر جب موسم کی تبدیلی کے باعث جب بارشوں کی ضرورت ہو اور بارشیں نہ ہوں یا جب بارشوں کی ضرورت نہ ہو اور بارشیں ہونے لگیں تو فصلوں کی تباہی کا باعث بنتی ہیں، کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچتا ہے یا پھر کٹائی سے پہلے تباہ ہو جاتی ہیں۔موسمی تبدیلی کے باعث طوفان ،بارش، برف باری، سیلاب ،خشک سالی، قحط سالی کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں اور مزید مسائل جنم لے رہے ہیں۔ جب پیداوار میں کمی آتی ہے تو لوگوں کا روزگار متاثر ہوتا ہے زراعت کے ساتھ ساتھ دوسرے شعبوں پر بھی اثر پڑتا ہے پاکستان میں لوگوں کا ذریعہ معاش تباہ ہو رہا ہے اور بڑے پیمانے میں بے روزگاری میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔مہنگائی میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔مہنگائی اور بے روزگاری کے سبب خوراک کی کمی کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور اس سے صحت کے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے یہ سب مسائل ملک میں افراتفری کا باعث بنتے جا رہے ہیں اور کرائم ریٹ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ۔اسی کے ساتھ آبادی میں مسلسل اضافہ بھی تشویش کا باعث بن رہی ہے۔ہم نے دیکھا کہ سیلاب سے کتنے بڑے پیمانے میں تباہی ہوئی لوگوں کا ذریعہ معاش متاثر ہوا۔لوگوں کے گھر، مال مویشی، ساز و سامان، بنیادی اشیاء ضروریات سیلاب کی نظر ہو گئے۔ جگہ جگہ سیلابی پانی کھڑا ہونے کی وجہ سے مختلف وبائی امراض پھوٹ پڑے، بڑے پیمانے میں اموات واقع ہوئیں، کھانے پینے کی اشیاء کی کمی، پینے کا لیے صاف پانی کی قلت ہو گئی۔ ان سب مسائل کے سبب لوگ نقل مکانی اور ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔ اس صورتحال میں حالات مزید تشویش ناک ہو جاتے ہیں۔ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے سے وہاں موجود آبادی کے مسائل بھی بڑھنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ پاکستان کو اس وقت بڑے چیلنجر کا سامنا ہے جن میں سیلاب متاثرین کے گھروں کی تعمیر سے لے کر بنیادی سہولیات زندگی، روزگار، علاج کی سہولیات، صاف پانی مہیا کرنا شامل ہے ۔ یہ ایسی تباہی ہے جس سے ہم اکیلے نہیں نمٹ سکتے عالمی سطح پر اس کے لیے بروقت صحیح اقدامات اٹھانے ہوں گے اگر عوام اور سیاست دانوں نے مل کر بروقت اقدام نہ اٹھائے تو آنے والے وقتوں میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور ہم آنے والی نسلوں کے لیے طرح طرح کے مسائل چھوڑ جائیں گے۔ جہاں دنیا اتنی تیزی سے ترقی کر رہی ہے وہاں ہمیں اپنے مسائل کو جان کر انکا حل نکالنا ہوگا تاکہ ایک بہتر ماحول میں پروان چڑھ کر پاکستانی عوام دنیا کے ساتھ چل کر ترقی کے منازل طے کرسکے۔ بحیثیت پاکستانی شہری ہم سب کو اپنے اپنے حصے کا کام کرنا ہوگا اپنی اپنی زمہ داریاں سمجھنی ہوں گی اس کے لیے ہمیں اپنی عوام کو ماحولیاتی اور موسمی تبدیلیوں سے متعلق آگاہی دینی ہوگی۔ موسمی تبدیلی کے ملک پر اثرات اسکی وجوہات اور عوام کے کردار کی آگاہی ضروری ہے۔ تعلیم کے حصول کو یقینی بنانا ہوگا خاص کر عورتوں کے علم حاصل کرنے پر زور دینا ہوگا۔  جتنی خواتین پڑھی لکھی ہوں گی اتنا ہی وہ شرح خواندگی میں اضافے سے متعلق جان سکیں گی اور آبادی کو قابو رکھنے کے لیے عملی کردار ادا کر سکیں گی، اپنی اولاد کی بہترین تربیت کر کے ان کو بھی ماحول بہتر بنانے کیلئے تیار کر سکیں گی، ملک کی ترقی کے لیے خواتین بھی عملی میدان میں زیادہ سے زیادہ حصہ لیں گی، اپنے لیے روز گار کے مواقع پیدا کر کے اس مہنگائی میں بہترین طرز زندگی گزارنے میں مدد کر سکیں گی۔اس کے علاوہ ہمیں خوراک میں سبزیوں اور پھلوں کا استعمال بڑھانا ہوگا جانوروں کے گوشت کے استعمال میں کمی کرنا ہوگی ۔اور اپنے گھروں میں کھانا اتنا ہی پکائیں جو ضائع نہ ہو۔ گھروں میں بجلی سے چلنے والی اشیاء کا کم اور صحیح استعمال کرنا ہوگا اے سی، فریج، جنریٹر سے پیدا ہونے والا دھواں بھی ماحولیاتی آلودگی کا سبب بنتی ہیں اپنے گھروں میں ایل ای ڈی بلب کا استعمال کرنا ہوگا ساتھ ہی بجلی کی بچت کرنے کی ضرورت ہے۔  اس کے علاوہ کاغذ، گلاس، پلاسٹک کا استعمال کم کرکے ری سائیکلنگ کی طرف جانا ہوگا اسکے ساتھ اپنے آس پاس کا ماحول صاف رکھنا ہوگا گھروں کے باہر گلی سڑک پر کچرا پھینکنے سے گریز کرنا ہوگا گلی محلہ صاف رکھ کر اپنے اہل خانہ اور آس پڑوس کی صحت کے لیے صفائی کا خاص خیال رکھنا ہوگا. پانی کا ضیاع کم کرنا ہوگا. اپنی گاڑیوں موٹر سائیکلوں کو دھوئیں سے پاک رکھنا ہوگا کوشش کریں کہ کم سفر ہو تو پیدل چلیں اور دفتر گھروں سے قریب ہوں تاکہ زیادہ سفر نہ ہو . انڈسٹری کو اپنی چمنی میں فلٹر لگانے ہوں گے تاکہ زہریلی گیس ماحول میں خارج نہ ہو. شجر کاری کی مہم چلانی ہو گی زیادہ سے زیادہ درخت لگانے ہوں گے اپنے گھروں میں آس پاس درخت لگائیں گھروں میں سبزیاں اگائیں۔ فصلوں کی پیداوار کو بھی بڑھانا ہوگا۔ نئے ڈیمز بنانے ہوں گے تاکہ پانی کو اسٹور کیا جا سکے۔ سولر سسٹم کا استعمال بڑھانا ہوگا۔ ایسے کچھ اقدامات اٹھا کر ہم موسمی تبدیلی پر کافی حد تک قابو پا سکتے ہیں اور آنے والے وقتوں میں سیلاب جیسی آفات کے امکانات کو کم کر کے ملک کو مزید خطرات سے بچایا جا سکتا ہے کیونکہ ماحول کی بقا میں ہی انسان کی بقا ہے۔اور یہ ملک ہم سب کا ہے اور ہم سب کو مل کر اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھا کر  ملک کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرنا ہم سب کا قومی فریضہ ہے۔