قرآن پاک میں بسا اوقات بہت سی آیات کو پڑھتے ہوئے ہم محسوس کرتے ہیں کہ یہ آیات تو عرب کے ان مشرکین اور منافقین کے بارے میں اتاری گئی ہیں جو کہ شرک کیا کرتے تھے، بتوں کو پوجتے تھے۔ ہم تو ان تمام باتوں سے مستثنیٰ ہیں کہ ہم ایک اللّٰہ کی عبادت کرتے ہیں، اس کے سامنے اپنا سر جھکاتے ہیں اور اسی سے سب کچھ مانگتے ہیں، لیکن ایک لمحے کے لیے اپنے دل میں جھانک کر اپنا محاسبہ دیانتداری سے کیا جائے تو محسوس ہوگا کہ یہ آیات تو ہم سے بھی متعلقہ ہیں کہ ہم بھی کہیں نہ کہیں شرک کر رہے ہیں، ہم بھی تو نادانستگی میں بہت سے بتوں کو پوج رہے ہیں ،بے شک کہ یہ بت مٹی اور پتھر کے بنے ہوئے نہیں لیکن مختلف صورتوں میں ہمارے اندر براجمان ہیں۔

اسلام کی بنیاد لآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ ہے یعنی نہیں ہے کوئی معبود برحق، لائق عبادت اللّٰہ کے سوا۔

یہ تعارفِ الٰہی اور بیان توحید ہے کہ وہ بے نیاز شہنشاہ، کائنات میں ہر موجود و معدوم، ہر مخلوق کا خالق ہے۔ یعنی دل میں اس اِلٰہ کے علاوہ کسی کی محبت وفوقیت کی گنجائش نہ ہو، لیکن یہاں تو ہم نے اپنے دلوں میں دنیا کی محبت وھوس پال رکھی ہے،خواھشوں کی موج کا لامتناہی سلسلہ اور دنیاوی محبوبوں کی محبت کا ہمارے دلوں میں بسیرا ہے، ہم پوجا کر رہے ہیں روپے پیسے کی ، ہمیں پرواہ ہے معاشرے میں اونچا مقام حاصل کرنے کی، ہم ہر چیز پر فوقیت دیتے ہیں اپنی اولاد اور خاندان کو، ہمیں ہوس ہے رتبہ، عزت، شہرت، اور تعریف و ستائش کی، ہم چاہتے ہیں کہ ہم اپنے لئے دنیا کی تمام آسائشیں اکٹھی کر لیں، تکمیل خواہشات ہی ہمارا مقصد حیات ہے ۔اور یہی وہ بت ہیں جنہیں ہم نے اپنے دل میں ذات الٰہی  سے زیادہ جگہ دی ہوئی ہے۔غرض کسی بھی اِلٰہ کو دل میں جگہ دےدی گئی تو وہ دل اللّٰہ تعالٰی سے بے آباد ہو گیا

لآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا مطلب ہے  مخلوقات کی غلامی سے آزادی اور صرف اللّٰہ واحد کی غلامی،   اس کا مطلب ہے کوئی نہیں ہے صرف اور صرف اللّٰہ کے سوا،سب سے پہلے بھی اور سب سے آخر میں بھی، یہ کلمہ روح کی آزادی ہے اس میں فلاح ہے، دنیا و آخرت کی بادشاہت ہے، خطرات سے بچاؤ اور ہدایت و سکون ہے۔  یعنی ہم اگر دنیاوی محبت کو پہلے اور اللّٰہ کو بعد میں اپنے دل میں جگہ دے رہے ہیں تو شرک کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔اب یہاں یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم دنیا کے حقوق کو نظر انداز کرکے اپنا تمام وقت صرف اور صرف ذکر الٰہی میں گزار دیں ، بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ صحیح درجہ بندی کی جائے سب سے پہلے اللّٰہ اور پھر باقی کام ، سب سے پہلے احکام الٰہی اور دنیا داری بعد میں۔

اب آپ نماز کو ہی لیں جو کہ توحید الٰہی کے بعد ایمان کا بنیادی رکن ہے۔ اسے ہم میں سے بہت سے لوگ اپنے دنیاوی کاموں سے فارغ ہو کر ادا کرتے ہیں جبکہ حکم تو یہ ہے کہ مسلمانو! جب تم نماز کے لیے پکارا جائے یعنی اذان دی جائے تو اپنے سب کام چھوڑ کر کر ذکر الٰہی کی طرف فوراً لپکو۔

اور پھر ہم جب نماز کی ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ اور اس میں ایاک نعبد و ایاک نستعین پڑھتے ہیں تو یہی اسرار خودی اور ہمارا مقصد حیات ہے۔ عبادت کا مادہ عبد ہے جس کے معنی غلام کے ہیں یعنی صرف مالک کی مرضی سے کام کرنا اور کسی طاقت کو خاطر میں نہ لانا۔ بندے کی طرف سے اظہار بندگی و عبادت، تخلیق آدم کا حقیقی مقصد ہے۔ عبادت میں عاجزی و انکساری،جوش و خشوع  کے ساتھ کمال محبت  اور خوف گرفت بھی ہو ۔رد شرک بھی ہو اور استقامت و چاہت الٰہی بھی ۔

عبادت صرف نماز اور تکمیل ارکان کا نام نہیں ہے بلکہ دنیا کے معاملات میں ایمانداری و انصاف بھی عبادت ہے۔ اللّٰہ کی خوشنودی کی خاطر اس کے سامنے سرجھکا کر حرام چھوڑ کر حلال اپنانا، سچائی کا دامن پکڑنا، تول کا پورا کرنا، غیبت تہمت اور جھوٹ سے بچنا، یتیموں، مسکینوں، بیواؤں، مظلوموں اور محتاجوں کا حق ادا کرنا، ظلم نہ کرنا ،انصاف پر ہمیشہ قائم رہنا، دنیاوی مفادات کو احکام الٰہی پر فوقیت دینا، خاندان، والدین، اولاد، میاں بیوی اور رشتہ داروں کے حقوق کی احسن طریقے سے ادائیگی کرنا یہ سب بھی طریقہ عبادت ہے ۔لیکن ان سب باتوں کی جگہ زندگی اور دل میں  اللّٰہ کے بعد ہونی چاہیے۔ سچائی، انصاف اور دیانت داری یہ تینوں چیزیں ہماری زندگی کو بندگی بنادیتی ہیں۔

 بے شک اسباب کی اس دنیا میں بہت سی باتوں میں ہم ایک دوسرے سے مدد کے طالب ہوتے ہیں اور ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں لیکن ایک تو انسانوں کی مدد کے لیے بھی اللّٰہ کی رضا چاہیے دوسرے بہت سی باتیں ایسی ہیں جنہیں صرف اللّٰہ ہی پوری کرسکتا ہے۔ سو اپنی حاجتوں اور ضرورتوں کے لئے سعی اور کوشش کے ساتھ ساتھ اس ذات الٰہی کے سامنے سر جھکا کر اس سے طلب کیا جائے صرف وہی دے سکتا ہے اور وہی دے گا۔دنیا بھی اسی سے مانگیں اور آخرت بھی۔ ہر ضرورت میں اس کے آگے جھولی پھیلائیں ۔جہاں انسان بے بس ہو جاتا ہے وہاں ذاتِ ربی کےایک دفعہ کن فیکون کے کہنے سے ہر ناممکن ، ممکن اور ہر مشکل، آسان ہو جاتی ہے۔یہ دنیا ایک امتحان ہے۔ عارضی ٹھکانہ ہے جس کی مدت و مہلت ہے اور یہاں کیے گئے ہر عمل کا اپنے رب کے سامنے حساب چکانا ہے۔ مخلوق و دنیا کی بندگی سے آزاد ہو کر صرف اللّٰہ کے سامنے سر جھکا کر جب ہم صرف اسی سے مدد کے طلب گار ہوں  اور اپنے دل میں ،اپنی زندگی میں تمام باتوں سے پہلے صرف اور صرف اللّٰہ کا درجہ رکھیں تو پھر ہم لآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا حق ادا کرکے اپنے آپ کو شرک سے پاک سمجھ سکتے ہیں

 جزاک اللّٰہ خیر